| جبینِ روح کا ننگ زندگی کا داغ ہوں میں |
| مگر بایں ہمہ اک آخری چراغ ہوں میں |
| خزاں رسیدہ ہوں پھر بھی بہار آشنا ہوں |
| ہزاروں پھول ہیں مجھ میں اچھوتا باغ ہوں میں |
| شکست و ریخت سے دوچار کرتی ہے دنیا |
| خدا کی رحمتِ کن کا مگر سراغ ہوں میں |
| سزائے ہجر نے برکت ہی ذکر کی لے لی |
| ترے جہاں میں ہمہ وقت بے فراغ ہوں میں |
| تری خدائی پہ مجھ سے جو حرف آتا ہے |
| مجھے کیوں دھو نہیں دیتا کہ تیرا داغ ہوں میں |
| تری صناعتِ ابدی کا پرتوِ خورشید |
| تری خلافتِ ازلی کا بھی چراغ ہوں میں |
| کسی کسی کے لیے ہر معمے کا حل ہوں |
| کسی کسی کے لیے وحشتِ دماغ ہوں میں |
| تمہاری لے کے لیے سازِ دل نواز کی دھن |
| تمہاری مے کے لیے عظمتِ ایاغ ہوں میں |
معلومات