حاصل نہ ہو سکا ہے تگ و دَو سے گرچہ کچھ
ہاں زندگی فریب تو دیتی رہی مجھے
جس کے بھرم میں سب کو گنوا بیٹھا دیکھیے
بر وقت دوغلا نظر آیا وہی مجھے
رونے میں تیرا کچھ تو نہیں جاتا ہے مگر
اندر سے توڑ دیتی ہے تیری نمی مجھے
میری فنا کو مل ہی تو جائے گا کچھ سکون
پھر بے بسی سے دیکھے اگر زندگی مجھے
ترتیب کے خیال سے میں تو بکھر گیا
کچھ کچھ سلیقہ بخشا کرے برہمی مجھے
جب خود پہ مجھ کو آ نہیں سکتا ہے اعتبار
اس طرح غور سے تو نہ دیکھے کوئی مجھے
اب کون سات جنموں کا پالا کرے گا خواب
بس ایک زندگی ہی مہنگی پڑی مجھے
اس دور میں جو خود کو سمجھتا نہیں میں کچھ
آخر تو کچھ سمجھ رہے ہوں گے سبھی مجھے
شاید سمجھ رہی ہے یہ دریا کا کچھ مزاج
صحرا بہ صحرا لے کے چلی تشنگی مجھے

0
7