بوئے گل کو نسیمِ سحر چاہیے |
ہم کو بس ایک کافر نظر چاہیے |
دل سلگتا ہے اور شمع بجھ جاتی ہے |
بس یہی کیفیت بھی اُدھر چاہیے |
بوئے ہجراں سے مہکے شب و روز سب |
اب ہمیں لمس کی کچھ خبر چاہیے |
ایک لمحہ، جہاں ہو فقط دیدگی |
ایک ایسی خموشی، اثر چاہیے |
کچھ نہ ہو بات میں، اور سب کچھ بھی ہو |
لفظ میں ایسا حسنِ ہنر چاہیے |
تم جو کہدو تو دنیا بدل جائے گی |
بس ہمیں اتنا سا معتبر چاہیے |
تنہا طے ہو سکے گا نہ دل کا سفر |
اس سفر میں شریکِ سفر چاہیے |
عقل ہے محوِ حیرت تو ہو جانے دے |
عشقِ سفاک کو صرف سر چاہیے |
آنکھ سے بوند ٹپکے کہ ٹپکے نہیں |
عالمِ دل میں زیر و زبر چاہیے |
کیفیت میں ہر اک دل کے ہو انقلاب |
نالۂ دل میں اتنا اثر چاہیے |
راہ گیروں کو درپیش ہے گمرہی |
اک چراغ ہم کو دیوار پر چاہیے |
زلفِ جاناں میں کیسے گزارا کریں |
جن کو ہر ایک شب کی سحر چاہیے |
معلومات