سنگ دلی نے پھول کھلائے
غنچۂ لب کیا شور مچائے
دن کے لمحوں میں رہ تکنا
صبح کا بھولا شام کو آئے
وقت کے مالک! مجھے کچھ وقت دے
زخم بھرنے دے، نفس کو ضبط دے
اہلِ خرد سے دور جنوں ہے
ناسمجھی میں کیا سمجھائے
دل تو ویرانی میں خوش ہے
آنکھ کا کیا ہے، کب بھر آئے
اس نے ہی پائی ہے منزل
دل کے سفر میں جو لٹ جائے
مجھ کو دھوپ کی نذر کیا اور
سائے میں ہیں سب ہمسائے

0
9