فرض کر لیجیے وہ بغل گیر ہیں
اپنا پہلو یوں ہی گدگدا لیجیے
ہم سے ہے آشنا حسنِ عالی مقام
ہم فقیروں سے بھی اک دعا لیجیے
اپنے دل میں ذرا سی جگہ دیجیے
اپنی آنکھوں میں ہم کو بسا لیجیے
بے قراری ذرا کم ہو ہم دونوں کی
اپنے سینے سے ہم کو لگا لیجیے
غم کھلونے کی مانند لگنے لگیں
روتے روتے اگر مسکرا لیجیے
عشق میں راکھ کر لیجے اپنا وجود
پھر اسی راکھ سے کچھ بنا لیجیے
اب تغافل مجھے مار ہی ڈالے گا
اب خبر میری بہرِ خدا لیجیے
دوسروں میں کمی پھر دکھائی نہ دے
پہلے اپنے لیے آئینہ لیجیے
سج رہا ہے یہاں آرزو کا مزار
سو چراغِ تمنا بجھا لیجیے
آپ رشتوں کا روشن دیا ہیں، جلیں
کیوں غلط فہمیوں کی ہَوا لیجیے

0
6