گرچہ منزل پہ مسافر کی نظر پڑتی ہے |
حوصلوں پر نہ کبھی گردِ سفر پڑتی ہے |
دل یہ بے ساختہ ہو جائے جہاں سربسجود |
جانِ جاناں کی وہیں راہ گزر پڑتی ہے |
ترے انفاس فضاؤں میں جو تحلیل ہوئے |
پیچھے خوشبو کے تبھی بادِ سحر پڑتی ہے |
ہم مٹا ڈالتے ہیں خود کو وفاداری میں |
کوچۂ جاناں کی پھر خاک اِدھر پڑتی ہے |
اس کی آنکھوں نے کوئی اور ہی غمازی کی |
میرے کانوں میں کوئی اور خبر پڑتی ہے |
اس سے واقف ہے سرافیل، نہ ثانی، نہ کلیم |
اک قیامت جو بہ اندازِ دگر پڑتی ہے |
پہلے متوالی ہوا کو تو کرے میرے خلاف |
پھر تسلی کے لیے شاخِ شجر پڑتی ہے |
معلومات