اک نظر نذرِ نظر کرنی ہے
اور بہ اندازِ دگر کرنی ہے
تم نے آنکھیں تو چرائیں ہر بار
گفتگو تم سے مگر کرنی ہے
تجھ سے باتوں میں بھی چپ رہنا ہے
تجھ کو دل کی بھی خبر کرنی ہے
اب کے وعدہ ہے، کوئی گلہ نہیں
تیرے لہجے کی اثر کرنی ہے
تیری زلفوں میں گنوا دوں ہر شب
تیرے پہلو میں سحر کرنی ہے
تم جو خاموش ہو، کچھ تو کہیے
خامشی کو بھی ہنر کرنی ہے
اک تبسم بھی عطا ہو جائے
پھر ہمیں ترکِ قمر کرنی ہے
کون کہتا ہے تمہیں جان لیا؟
ابھی کچھ اور نظر کرنی ہے

0
7