Circle Image

باصر نسیم

@Basirnasim1

کوئی میرے ساتھ جائے دور تک اور دیر تک
میری آنکھوں میں سمائے دور تک اور دیر تک
چاند کے تاریک گوشے بھی فروزاں ہوں کبھی
آنکھ یوں بھی دیکھ پائے دور تک اور دیر تک
کرب کے بے رحم بادل کب چھٹیں کس کو خبر
آنکھ صحرا ہو نہ جائے دور تک اور دیر تک

6
بولتے دریا بھی گونگے منظروں سے ہوگئے
جیسے آنکھوں کے نگینے پتھروں سے ہوگئے
وہ کہ صحرا سے گزرتے تھے تو کھل جاتے تھے پھول
قہر کیا ٹوٹا کہ بکھرے بادلوں سے ہو گئے
جن کی پیشانی میں روشن تھیں جہاں کی رفعتیں
میرے گھر کے راستے میں راستوں سے ہوگئے

12
کبھی بے باک شاہیں خوں چکیدہ پر سے نکلے گا
جسے مہمل سمجھتا ہے وہ اک دن ڈر سے نکلے گا
کسی دیوار کے تابوت میں خاموشیاں چن کر
مرا قامت مرے اظہار کے پتھر سے نکلے گا
اگر چہ ہر سپاہی دل گرفتہ ہے مگر ہمدم
کوئی قائد کوئی باغی اسی لشکر سے نکلے گا

8
لوگ بھی چپ ہیں مرے دل کی صداؤں کی طرح
کون بولے گا بیاباں کی ہواؤں کی طرح
ذرے ذرے کی رعونت ترے ماحول کی شان
میرا احساس تمدن کسی گاؤں کی طرح
بوئے گل ہوں تو نہ رکھ مجھ سے تعلق کوئی
فصل گل ہوں تو مجھے اوڑھ رداؤں کی طرح

0
7
لبوں کے آشیانے میں
نہ باتوں کا پرندہ ہے
نہ سوچوں کی کہانی میں
کوئی کردار زندہ ہے
یہ آنکھیں ہیں کہ اجڑی آرزو کی زرد سی جھیلیں
کہیں بے رونقی کے بدنما کاجل

0
10
ہر کوئی شادماں ہے خوابوں میں
کیسا اچھا جہاں ہے خوابوں میں
تم بھی بیٹھے ہو میرے پہلو میں
گھر کی صورت مکاں ہے خوابوں میں
تیر اپنے ہدف پہ لگتا ہے
معجزاتی کماں ہے خوابوں میں

0
7
خموشی کے پیمبر بولتے ہیں
مرے ہاتھوں میں پتھر بولتے ہیں
میں دریاؤں سے کیا بولوں کہ باصر
سمندر سے سمندر بولتے ہیں

0
11
یہ مری سوچ سے آگے ہیں مرے ساتھ نہیں
خطرہ پاتے ہی جو بھاگے ہیں مرے ساتھ نہیں
ہم تو جاگے ہیں کہ خطروں سے تھا لڑنا اک دن
بھاگ جن کے نہیں جاگے ہیں مرے ساتھ نہیں
لوگ احساس کی بھٹی میں بھی کندن نہ ہوئے
کیسے الجھے ہوئے دھاگے ہیں مرے ساتھ نہیں

0
9
پرندے کے پروں میں قوتِ پرواز تجھ سے ہے
ممولا ہے کہ راہِ شوق کا شہباز تجھ سے ہے
یہ رتبہ ماں کی ہستی کا کوئی جھٹلا نہیں سکتا
کہ دنیا میں ہراک آغاز کا آغاز تجھ سے ہے
تری سانسوں میں پلتی تھیں مرے ہونے کی آشائیں
مرا رونا مرا ہنسنا مری آواز تجھ سے ہے

2
50
ہوا مسافر مسافروں کی ادا مسافر
زمیں پہ خوشبو فلک پہ اڑتی گھٹا مسافر
گئی رتوں کے حسین تحفے سنبھال رکھنا
کہ جس سے قائم بہار تھی وہ چلا مسافر
سنا ہے سنتا ہے رب دعائیں مسافروں کی
ہمارے حق میں بھی کرتے جانا دعا مسافر

0
13
ہوا مسافر مسافروں کی ادا مسافر
زمیں پہ خوشبو فلک پہ اڑتی گھٹا مسافر
گئی رتوں کے حسین تحفے سنبھال رکھنا
کہ جس سے قائم بہار تھی وہ چلا مسافر

0
10
جب سرِ مقتل کسی خود سر کا سر بکتا نہ تھا
سب کے گھر محفوظ تھے کوئی بھی گھر بکتا نہ تھا
لوگ قائم تھے حوادث میں چٹانوں کی طرح
راستہ بکتا نہ تھا عزمِ سفر بکتا نہ تھا
چاند کے ہالے بھی اپنے ساتھ تھے محوِ سفر
کھوٹ کے بازار میں جب راہ بر بکتا نہ تھا

0
35
نرگسِ شہلا کو بینائی کا دکھ
میری آنکھوں میں ہے تنہائی کا دکھ
چاک دامانی کی رسمیں لد گئیں
اب رفو کر لو شناسائی کا دکھ
ٹُوٹ جانے میں صدا کی زندگی
لوچ کھانے میں جبیں سائی کا دکھ

0
44
ابھی آزما لو..
ہوا تیرے آنگن میں رقصاں رہے گی
چراغوں کے سائے بھی محفوظ ہونگے
کسی پیڑ پر کوئی سرسبز پتّا نہ انگڑائی لےگا نہ جھومے گا جب تک
تری آنکھ اذنِ تحّرک نہ دے گی
اجازت کا اس کو تبرّک نہ دے گی

0
35
پرندے کے پروں میں قوتِ پرواز تجھ سے ہے
ممولا ہے کہ راہِ شوق کا شہباز تجھ سے ہے
یہ رتبہ ماں کی ہستی کا کوئی جھٹلا نہیں سکتا
کہ دنیا میں ہراک آغاز کا آغاز تجھ سے ہے
تری سانسوں میں پلتی تھیں مرے ہونے کی آشائیں
مرا رونا مرا ہنسنا مری آواز تجھ سے ہے

0
61