نہ گورے سے تعصب ہے نہ کالے کا میں باغی ہوں |
فقط خیرات میں بخشے اجالے کا میں باغی ہوں |
میں کسبِ رزق کرتا ہوں انا کے آسمانوں سے |
امیرِ شہر کے پھینکے نوالے کا میں باغی ہوں |
جو اپنا آپ منوا کر مجھے گمنام کر ڈالے |
زمین و آسماں کے اس حوالے کا میں باغی ہوں |
میرے احساس میں جاری ہے سفر آہٹ کا |
وہ گھڑی بیت چکی ہے تو گزر کس کا ہے |
پھول کے رنگ میں تیرا ہے الجھنا بے کار |
جانتا گر نہیں خوشبو میں سفر کس کا ہے |
زخم گہرا ہے تو خود درد سے بھر لے اس کو |
ظاہراَ دوست بہت کون مگر کس کا ہے |
جبر کے موسم میں خود سے منصفی کرکے دکھا |
کچھ نہیں تو احتجاجاً خود کشی کرکے دکھا |
حرف کے آنگن میں رکھ کے فکر کے روشن چراغ |
بے ہنر سی محفلوں میں روشنی کرکے دکھا |
بزمِ گویائی میں گونجے گا سدا تیرا سخن |
کچھ الگ سے ذائقے کی شاعری کرکے دکھا |
یہی سوچا ہے اب ہم نے زمانہ ساز ہونا ہے |
کسی کا راز رکھنا ہے کسی کا راز ہونا ہے |
کسی کا راستہ بن کر دکھانی ہے اسے منزل |
کسی کے ساتھ گمراہی میں ہم آواز ہونا ہے |
کسی کی خلوتوں میں جلوتوں کے رنگ بھرنے ہیں |
کسی کی جلوتوں میں خلوتوں کا ساز ہونا ہے |
حوادث کے بیابانوں میں دوڑے عمریں گزری ہیں |
اسے خوابوں کے دروازے پہ چھوڑے عمریں گزری ہیں |
مری آنکھوں کے پانی میں نہیں وہ کاٹ پہلے سی |
کہ دل میں درد کے لیموں نچوڑے عمریں گزری ہیں |
شکستہ آرزو کے در پہ اک مردہ سا دل جیسے |
پڑا ہے عشق سے ہر رشتہ توڑے عمریں گزری ہیں |
ہوا مسافر مسافروں کی ادا مسافر |
زمیں پہ خوشبو فلک پہ اڑتی گھٹا مسافر |
گئی رتوں کے حسین تحفے سنبھال رکھنا |
کہ جس سے قائم بہار تھی وہ چلا مسافر |
سنا ہے سنتا ہے رب دعائیں مسافروں کی |
ہمارے حق میں بھی کرتے جانا دعا مسافر |
جب سرِ مقتل کسی خود سر کا سر بکتا نہ تھا |
سب کے گھر محفوظ تھے کوئی بھی گھر بکتا نہ تھا |
لوگ قائم تھے حوادث میں چٹانوں کی طرح |
راستہ بکتا نہ تھا عزمِ سفر بکتا نہ تھا |
چاند کے ہالے بھی اپنے ساتھ تھے محوِ سفر |
کھوٹ کے بازار میں جب راہ بر بکتا نہ تھا |