یہ سارے لوگ جو بیٹھے ہیں اب چراغ کے گرد |
جب آئے تھے تو ہواؤں سے مل کے آئے تھے |
یہ کیا کہ ایک ہی حملے میں ہوگئے سب ڈھیر |
یہ جنگجو تو خداؤں سے مل کے آئے تھے |
جہاں کے مال نے ان کو بھی کر دیا تقسیم |
جو اپنی ماں کی دعاؤں سے مل کے آئے تھے |
یہ من کا دشت کہ بس دشت ہی رہا باصر |
اگرچہ ہم بھی گھٹاؤں سے مل کے آئے تھے |
معلومات