| میں صحرا ہوں برستی خشکیاں ہیں |
| تری آنکھوں میں کیسی خشکیاں ہیں |
| سمندر کی تہیں کھودیں تو جانا |
| کہ زیرِ آب رہتی خشکیاں ہیں |
| نہ بارش ہے نہ پانی کے وسیلے |
| مرے پیڑوں میں بیٹھی خشکیاں ہیں |
| میں صحرا کی طرح پانی تلاشوں |
| بدن میں جب اترتی خشکیاں ہیں |
| چلو سیلِاب کی مانگیں دعائیں |
| جو کھیتوں میں بلا کی خشکیاں ہیں |
| تپش سے آگ بن جاتا ہے موسم |
| تو سانسوں میں مچلتی خشکیاں ہیں |
| جب آنکھوں میں اتر آئیں اندھیرے |
| تو کانوں میں کھنکتی خشکیاں ہیں |
| سمندر ہانپتے دیکھے ہیں باصر |
| وفا رستے میں ایسی خشکیاں ہیں |
معلومات