| حرص کے اسیروں کی خواہشوں کے پرچم ہیں |
| زندگی کے نقشے پر غاصبوں کے پرچم ہیں |
| عزم تھا کہ صحرا کو گلستاں بنائیں گے |
| اب اجاڑ آنکھوں پر آنسوؤں کے پرچم ہیں |
| کارگر نہ ہوجائیں لوٹنے کی تدبیریں |
| رہزنوں کے ہاتھوں میں رہبروں کے پرچم ہیں |
| رکتے رکتے رکتی ہیں درد و غم کی یلغاریں |
| گرتے گرتے گرتے ہیں حوصلوں کے پرچم ہیں |
| کیا ہوا کہ لمحوں میں یوں الٹ گئی دنیا |
| منزلوں کے سینوں پر راستوں کے پرچم ہیں |
| وہ غرور و نخوت کی گر چکی ہیں دیواریں |
| اب دیارِ ویراں میں قہقہوں کے پرچم ہیں |
| دھول ہیں مری سوچیں ان اجاڑ رستوں کی |
| جن پہ درد مندوں کے مقبروں کے پرچم ہیں |
معلومات