سجا کے لائے تھے اپنی انا کا پیکر ہم
اٹھیں وہ نظریں تو سنبھلے نہ کھا کے ٹھوکر ہم
یہ عقدہ کھل ہی گیا سب پہ میرے قتل کے بعد
کہ اک سوار نہ تھے اصل میں تھے لشکر ہم
حریمِ ذات میں احساس گونجتا کیسے
کہ قمری اڑ گئی اور رہ گئے صنوبر ہم
ذرا سی چوٹ سے عمروں کے بند ٹوٹ گئے
گلہ غلط تھا کہ لائے برے مقدر ہم
نئے سفر کی تمنا ہی اصل حاصل تھی
اتار پائے اسی سے لباسِ محور ہم
خزاں کے دیس میں پھولوں کی مشعلیں لے کر
جو آئے گا اسے ماریں گے پھر سے پتھر ہم
تو اک جزیرے کی خواہش میں خود کو بھول گئی
لٹا کے لاکھ جزیرے ہوئے سمندر ہم
دعائیں مانگتے رہنا نہیں طریق مرا
جو وقت جانچ کے مانگے وہی قلندر ہم
وہ اب بھی اپنی حویلی میں شادماں ہوگی
ہوئے ہیں جس کی حمایت میں گھر سے بے گھر ہم
تمام عمر اسی سوچ میں کٹی باصر
کہ ہم سے اہلیہ بہتر رہی کہ بہتر ہم

0
16