میں اشکوں کی گھٹا ہوں دورِ حاضر
میں صیدِ بے نوا ہوں دورِ حاضر
رگوں میں رنگ ہے اب خوں کے بدلے
میں اک برگِ حنا ہوں دورِ حاضر
مرا احساس ماضی کا فسانہ
میں پتھر ہو گیا ہوں دورِ حاضر
مری سانسیں ہیں نوحہ میرے فن کا
میں اپنا مرثیہ ہوں دورِ حاضر
مری صورت ہے منزل حسرتوں کی
میں ٹوٹا سلسلہ ہوں دورِ حاضر
نیابت کا ہنر میں نے نہ سیکھا
میں اپنا رہنما ہوں دورِ حاضر

0
20