جو ہے نہیں وہ دکھانے کی رسم جاری ہے
خزاں میں پھول کھلانے کی رسم جاری ہے
کبھی ہے جان نشانے پہ تو کبھی دستار
شکار کرنے کرانے کی رسم جاری ہے
میں اپنے آپ سے گزرا تو یہ ہوا معلوم
مرا ہی خون بہانے کی رسم جاری ہے
زمیں کے لوگ نکل جائیں اس زمیں سے بھی
فلک سے برق گرانے کی رسم جاری ہے
میں ڈھونڈتا پھروں زنجیرِ عدل شہر بہ شہر
صلیب اٹھا کے گھمانے کی رسم جاری ہے

0
18