فانی ہے کائنات مگر دل نہیں مرا
کردش میں جام شوق رہے گا یہیں مرا
صبحِ ازل وہ میرے مقدر میں لکھ چکا
کہتا ہوں جو بھی اپنی زباں سے نہیں مرا
بے ربط موسموں کو میں اپنا جہاں کہوں
اتنا نہ خام جا نیے ذوقِ یقیں مرا
اب کیا کسی کی یاد میں آنسو بہائیں ہم
اپنے سوا تو کوئی بھی اپنا نہیں مرا
دیکھو تو اس نظامِ نمودِ جہاں کے رنگ
کیسے مٹا رہا ہے مجھے خوشہ چیں مرا

22