کوئی میرے ساتھ جائے دور تک اور دیر تک
میری آنکھوں میں سمائے دور تک اور دیر تک
چاند کے تاریک گوشے بھی فروزاں ہوں کبھی
آنکھ یوں بھی دیکھ پائے دور تک اور دیر تک
کرب کے بے رحم بادل کب چھٹیں کس کو خبر
آنکھ صحرا ہو نہ جائے دور تک اور دیر تک
جب سفر ہی آخری منزل تو پھر کیسا قرار
بس قدم اٹھتا ہی جائے دور تک اور دیر تک
بے حسی کی اس فضا میں کون بانٹے درد و غم
بے بسی کے تلخ سائے دور تک اور دیر تک
کچھ ہوائیں منہ چھپائیں کچھ ہیں کم ہمت چراغ
معرکہ سر ہو نہ پائے دور تک اور دیر تک
ایک زیرِ لب تبسم بھی غنیمت ہے کہ اب
باصر اپنے ہیں پرائے دور تک اور دیر تک

28