| اب تو کوئی ساتھ جائے دور تک اور دیر تک | 
| آنکھ سے دل میں سمائے دور تک اور دیر تک | 
| چاند کے تاریک گوشے بھی فروزاں ہوں کبھی | 
| آنکھ یوں بھی دیکھ پائے دور تک اور دیر تک | 
| کرب کے بے رحم بادل کب چھٹیں کس کو خبر | 
| آنکھ صحرا ہو نہ جائے دور تک اور دیر تک | 
| جب سفر ہی آخری منزل تو پھر کیسا قرار | 
| پاؤں اب رکنے نہ پائے دور تک اور دیر تک | 
| بے حسی کی اس فضا میں کون بانٹے درد و غم | 
| بے بسی کے تلخ سائے دور تک اور دیر تک | 
| کچھ ہوائیں منہ چھپائیں کچھ ہیں کم ہمت چراغ | 
| معرکہ سر ہو نہ پائے دور تک اور دیر تک | 
| ایک زیرِ لب تبسم بھی غنیمت ہے کہ اب | 
| باصر اپنے ہیں پرائے دور تک اور دیر تک | 
 
    
معلومات