خموشی کے پیمبر بولتے ہیں
مرے ہاتھوں میں پتھر بولتے ہیں
سزاؤں سے نہ بچ پائیں گے قاتل
کہ خوں آلود خنجر بولتے ہیں
جہاں بنتی ہے صورت بولنے کی
وہاں لازم مقدر بولتے ہیں
کبھی سن کے تو دیکھو گوشِ جاں سے
چمن کے سارے منظر بولتے ہیں
جو کاٹیں کوہِ شب آنکھوں میں تنہا
سویرے ان کے بستر بولتے ہیں
میں دریاؤں سے کیا بولوں کہ باصر
سمندر سے سمندر بولتے ہیں

0
70