مرے من میں چھپا تھا اک خزانہ
جب اپنے آپ میں اترا تو جانا
کسی کے ہجر میں دے کے یہ دنیا
مقدر کر لیے ہیں شاعرانہ
دیارِ غیر میں ہوں دل گرفتہ
کہ راس آتا نہیں موسم سہانا
ہزاروں آسماں ٹوٹے ہیں مجھ پر
قیامت سے مجھے اب کیا ڈرانا
پرندے پالنے کی دو ہی شرطیں
مکاں محفوظ وافر آب و دانہ
میں کر سکتا تو پھر بھی کچھ نہ کرتا
مری بھڑکیں ہیں ساری شاعرانہ
میں ہوتا جارہا ہوں کچھ نیا سا
مجھے سمجھو نہ اب باصر پرانا

0
20