پتھر کوئی نہ آئے یہ اطوار تو نہ تھے
ایسے بھی بے ثمر مرے اشجار تو نہ تھے
لوٹی ہوئی پتنگ سے کچھ کم نہ تھا مآل
یوں بے اصول جاں کے خریدار تو نہ تھے
شک کی دراڑ ہو گئی ہر چیز کو محیط
پہلے حریمِ ذات میں اغیار تو نہ تھے
بیچیں گے یوں متاعِ انا کوڑیوں کے مول
ایسے حریص قوم کے معمار تو نہ تھے
اک معرکہ وجود کو دو لخت کر گیا
جرّی تھے میرے واہمے تلوار تو نہ تھے
دشنام ہے نہ سنگِ ملامت کی رونقیں
اہلِ وفا یوں عشق کے بازار تو نہ تھے

0
32