| پتھر کوئی نہ آئے یہ اطوار تو نہ تھے |
| ایسے بھی بے ثمر مرے اشجار تو نہ تھے |
| لوٹی ہوئی پتنگ سے کچھ کم نہ تھا مآل |
| یوں بے اصول جاں کے خریدار تو نہ تھے |
| شک کی دراڑ ہو گئی ہر چیز کو محیط |
| پہلے حریمِ ذات میں اغیار تو نہ تھے |
| بیچیں گے یوں متاعِ انا کوڑیوں کے مول |
| ایسے حریص قوم کے معمار تو نہ تھے |
| اک معرکہ وجود کو دو لخت کر گیا |
| جرّی تھے میرے واہمے تلوار تو نہ تھے |
| دشنام ہے نہ سنگِ ملامت کی رونقیں |
| اہلِ وفا یوں عشق کے بازار تو نہ تھے |
معلومات