جراتِ اظہار گونگے منظروں سے باندھ دے |
رات گہری ہے تو قسمت جگنو ؤں سے باندھ دے |
گھر کے تہہ خانے میں چھپ کے کاٹ لے باقی حیات |
یا انا کے آشیانے بجلیوں سے باندھ دے |
حبس کے موسم میں اک دن دم نہ گھٹ جائے کہیں |
نام ہی کا کوئی جھونکا روزنوں سے باندھ دے |
وہ زمانے اور تھے جب شہر تھے جائے اماں |
اب مہذب بام و در بھی جنگلوں سے باندھ دے |
کیوں اچھلتی پھر رہی ہیں پانیوں میں مچھلیاں |
اے ہوائے جبر ان کو ساحلوں سے باندھ دے |
روح کو محروم کردے باطنی انوار سے |
اس طرح خاکی کو سفلی لذتوں سے باندھ دے |
راستے مسدود کردے آگہی کے نام پر |
بے عمل کو خانقاہی ظلمتوں سے باندھ دے |
تو مری یادوں سے مٹتا جارہا ہے ہر گھڑی |
مل نہیں سکتا تو دل کی دھڑکنوں سے باندھ دے |
میں بھٹکتا جارہا ہوں جنگلوں کی شام میں |
مجھ کو اپنی رہ گزر کے قافلوں سے باندھ دے |
صرف شمشیروں سے جنگیں جیتنا ممکن نہیں |
اپنے من کی طاقتیں بھی بازدؤں سے باندھ دے |
معلومات