کبھی بے باک شاہیں خوں چکیدہ پر سے نکلے گا |
جسے مہمل سمجھتا ہے وہ اک دن ڈر سے نکلے گا |
کسی دیوار کے تابوت میں خاموشیاں چن کر |
مرا قامت مرے اظہار کے پتھر سے نکلے گا |
اگر چہ ہر سپاہی دل گرفتہ ہے مگر ہمدم |
کوئی قائد کوئی باغی اسی لشکر سے نکلے گا |
کڑکتی بجلیاں ہیں بارشیں ہیں سخت موسم ہیں |
مگر دشمن نہیں باہر ترے اندر سے نکلے گا |
روایت کے تسلسل میں نئی باتیں بھی کہنی ہیں |
کوئی منجھا ہوا مسلم اسی کافر سے نکلے گا |
معلومات