| مرے حوالے سے پہچانی جائے گی اب تو |
| خود اپنے آپ میں اک کائنات تھی کب تو |
| یہ رنگ و نور یہ خوشبو یہ موسموں کا سرور |
| ترے وجود کے پہلو ہیں ان میں ہے سب تو |
| وہ شبنمی سے نظارے نظر میں ہیں اب بھی |
| عجب حیا کے سمندر میں بہہ گئی شب تو |
| تجھے بھی پاسِ وفا تھا یہ جانتا ہوں میں |
| مگر صلیبِ محبت سے دور تھی جب تو |
معلومات