بھیگی آنکھوں میں خواب سوکھ گئے
تم نہ آئے گلاب سوکھ گئے
آرزو کا نہ کوئی پھول کھلا
دید کے جب سحاب سوکھ گئے
جن کو پڑھ کے وفا نبھانی تھی
روح کے وہ نصاب سوکھ گئے
تازہ تھے اس کے سب سوال مگر
میرے لب پر جواب سوکھ گئے

0
30