شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا نہ تھا
میں ہواؤں کے لئے ہلکا نہ تھا
سب مناظر جھوٹ سے منسوب تھے
اے خدا تیرا کہیں چرچا نہ تھا
جاں بلب تھے زندگی کے قافلے
شہر میں پانی بھرا دریا نہ تھا
بے ضمیری کے ہزاروں روپ تھے
جسم تو رکھتے تھے پر چہرہ نہ تھا
بے زبانوں کی زباں بن جائے گا
وہ مزارع جو کبھی بولا نہ تھا
دائروں میں زندگی محصور تھی
خواہشوں سے میں کبھی نکلا نہ تھا
من گھڑت قصوں میں الجھا تھا جہاں
جو حقیقت تھی کوئی کہتا نہ تھا
دشت اوڑھے پھر رہے تھے در بدر
بادلوں میں عدل کا شیوہ نہ تھا
چاندنی کے دیس میں شعلہ مزاج
سورجوں کا قافلہ چلتا نہ تھا
کانچ کے جسموں میں روحیں مضمحل
تھیں تو تھیں احساس بھی زندہ نہ تھا
سارے چہرے ایک سے تھے شہر میں
ایک بھی چہرہ یہاں اپنا نہ تھا
لا تعلق تھے وہ مجھ سے اس طرح
جیسے ہم میں اب کوئی جھگڑا نہ تھا
خوف میں مدفون تھا میرا وجود
شعلہ تھا لیکن کبھی بھڑکا نہ تھا
بھاگتے لمحوں سے کیا ملتا مجھے
جب میں تیری سوچ کا حصّہ نہ تھا
سوچتے ذہنوں سے خالی تھے بدن
جاگتی آنکھوں کا دکھ اپنا نہ تھا

0
24