کانٹے بچھائے جاتے ہیں میرے وجود میں
اپنے مجھے ستاتے ہیں میرے وجود میں
زخموں سے چور چور ہیں خوابوں کی بیریاں
پتھر کہاں سے آتے ہیں میرے وجود میں
ہم تو لحافِ خوف میں دبکے ہیں سر بسر
اور غیر دندناتے ہیں میرے وجود میں
چلنے لگی ہے پیار کی بے ساختہ ہوا
شاید وہ مسکراتے ہیں میرے وجود میں
دل کے اجاڑ خانے میں روشن ہوا سماں
جب بھی وہ آتے جاتے ہیں میرے وجود میں
آنکھیں تو حسنِ دید کی لذت اٹھا چکیں
اب غم سزا سناتے ہیں میرے وجود میں
شامیں وفور وجد میں ہنستی ہیں رات بھر
مہتاب گنگناتے ہیں میرے وجود میں

0
16