شکایت کیوں کریں اس سے
کہ دشمن ہے وہ خوابوں کا
جو کرنا تھا کیا اس نے
مرے سب خواب ٹھکرا کر وہ شاداں ہے، فروزاں ہے
ہواؤں کی توانا مُٹھیاں بھی کب رکھیں طاقت کہ تھامیں
سر پھری خوشبو، کوئی مچلا ہوا آنسو
یہ لازم ہے
کہ کچھ ہی فاصلے کے بعد سب کو ہے جدا ہونا
نئی راہیں نئے ڈیرے سجا کے پھر ہوا ہونا
یہی ہے رات کا پھیرا، یہی دن کا تقاضا ہے
جو ساتھی ساتھ چل نکلے
وہ آگے ہو کہ پیچھے ہو
اسے تو پار جانا ہے
نئے منظر کے آنگن میں نیا جیون بتانا ہے

0
13