کار و بارِ زیست کا سود و زیاں دیکھیں گے ہم
اب ضرورت کی نظر سے یہ جہاں دیکھیں گے ہم
کیا کھلے گا حسبِ وعدہ بادبانِ آرزو
یا سفینے ڈوبتے آبِ رواں دیکھیں گے ہم
لوگ پھولے جارہے ہیں کثرتِ اموال سے
اب غباروں کا فضا میں کارواں دیکھیں گے ہم
لمحہِ موجود کا واضح ہے اب کے فیصلہ
خوں خرابوں کی فضا میں گلستاں دیکھیں گے ہم
ظلم حد سے بڑھ گیا تو پھر بقا کی جنگ میں
چیرہ دستوں کے گھروں میں بھی دھواں دیکھیں گے ہم
باصر آخر کب تھمیں گے ابتری کے سلسلے
اجڑے اجڑے چہروں کو کب شادماں دیکھیں گے ہم

0
24