دل میں حسرت کا ہر نشاں چپ ہے
جیسے لفظوں میں داستاں چپ ہے
اب وہ بیتابیِ وصال کہاں
آرزو مثلِ خونِ جاں چپ ہے
راز کی بات ہوگئی شاید
اس لیے آج رازداں چپ ہے
دل کی بستی ہے اس طرح جیسے
شب کے سائے میں یہ جہاں چپ ہے
اس جہاں میں ہوں اس طرح باصر
ذہن گویا ہے اور زباں چپ ہے

33