کل جو برہم بجلیوں میں آشیانہ رہ گیا
خیر خواہوں نے کہا منظر سہانا رہ گیا
وقت کی رفتار سے آگے رہا تیرا ہنر
سر پٹختا منصفی کا تازیانہ رہ گیا
لٹ گئی آبا کے اوصافِ حمیدہ کی متاع
قوم کے تازہ لہو میں ناچ گانا رہ گیا
اور تو ہر آزمائش میں رہے ہم کامیاب
صرف ان کے تنگ دل میں اب سمانا رہ گیا
اُس کو اِس سے کیا غرض ہو یا نہ ہو فن کا فروغ
کام اب فنکار کا پیسہ کمانا رہ گیا

0
16