خواب بکھرے جو نفرتیں ابھریں
جانے کیسے قیامتیں ابھریں
آنکھ کے پاس اک خزانہ تھا
بعد تیرے حقیقتیں ابھریں
میرے میخانے دوزخوں کی طرح
تیرے ساغر میں جنتیں ابھریں
کاٹنے کو ملیں گے سنّاٹے
روح کی گر سماعتیں ابھریں
پھول مہکے تو ہم نے جان لیا
پھر کسی کی نزاکتیں ابھریں
باصر اب کے عجیب موسم تھا
آنکھ روئی نہ وحشتیں ابھریں

0
18