سمندر ہو کے جو خاموش صحراؤں سے ڈرتے ہیں
مرے گھر میں کچھ ایسے بے اماں بچے بھی پلتے ہیں
نہ ہوتے یہ تو کب کھلتی در و دیوار کی حالت
مجھے تو زلزلے بھی اپنے مخلص دوست لگتے ہیں
ابھی تنہائیوں کی زندگی میں ہے چہک باقی
ابھی دن رات اپنے خود کلامی میں گزرتے ہیں
جو اپنے حسن پر مرنے کے دعویدار تھے باصر
وہ میری ہر ادا پر اب دوانہ وار مرتے ہیں

0
18