اسے پھولوں سے نفرت ہے |
جسے کانٹوں کی دنیا میں سدا کانٹوں پہ چلنا ہے |
جسے اپنوں کی بے رحمی کا جنگل پار کرنا ہے |
اسے پھولوں سے نفرت ہے |
کہ ان کے رنگ تو ہلکے ہیں پر یہ آج بھی خوئے تغافل میں سدا کی طرح پکّے ہیں |
یہ چپ ہیں، خود نگر ہیں بے حسی میں سب سے آگے ہیں |
نہ ہونے کے لبادے ہیں |
اسے پھولوں سے نفرت ہے کہ یہ معصوم ہیں لیکن نہیں معصوم بھی اتنے |
کہ اپنی آرزوؤں کی نئی کلیاں کھلانے کو |
صبا سے رازداری میں کچھ ایسے بھی یہ کر لیتے ہیں سمجھوتے |
کہ اپنی جان سے پیاری |
دلاری، نازنیں عصمت کا بھی نیلام کر ڈالیں |
صبا کے کھردرے دامن کے ہیبت ناک مقتل میں |
معطر، بے زباں خوشبو کا قتلِ عام کرڈالیں |
صبا کو چپ کے لہجے میں مگر بدنام کر ڈالیں |
اسے پھولوں سے نفرت ہے |
معلومات