| وسعتِ صحرا میں اجڑے موسموں سے ہوگئے |
| بولتے دریا بھی گونگے منظروں سے ہوگئے |
| جن کی پیشانی میں روشن تھیں جہاں کی رفعتیں |
| میرے گھر کے راستے میں راستوں سے ہوگئے |
| دشت پہنے پھر رہا تھا شہرکا ہر آدمی |
| دھوپ کے گنبد میں ہیرے کوئلوں سے ہوگئے |
| دل لبھاتی ہے اب اپنی ہی صدائے بازگشت |
| پربتوں سے ہم لُڑھکتے وادیوں سے ہوگئے |
معلومات