سمندر کے تھپیڑوں میں کنارا کیوں نہیں ہوگا
تمھارا گر خدا ہے تو ہمارا کیوں نہیں ہوگا
کوئی بھی آزمائش ہو اکٹھے سرخ رو ہونگے
یہ نیت ہے تو جانِ من گزاراکیوں نہیں ہوگا
محبت کے تقاضوں میں وفا پہلا تقاضا ہے
اگر دریا میسر ہے تو دھارا کیوں نہیں ہوگا
وہ ظالم جس کی گردن میں پڑاہے حبس کا پھندا
اسے مظلوم کی آہوں نے مارا کیوں نہیں ہوگا
میں اپنے حسن کی مسند پہ بیٹھی شوخ دوشیزہ
مری قسمت میں مجھ جیسا کنوارا کیوں نہیں ہوگا
جسے احساس کی آغوش میں ماں نے سلایا ہو
بڑھاپے میں وہ پھر اس کا سہارا کیوں نہیں ہوگا

0
14