وفاؤں کی زباں بولوں تو کیسے
لٹا میرا جہاں بولوں تو کیسے
سلگتے دل سرِ دیوارِ گریہ
میسر اب کہاں بولوں تو کیسے
دھندلکوں میں کہیں گم ہیں سویرے
نہیں کوئی نشاں بولوں تو کیسے
دلوں میں دفن رازوں کے دفینے
کبھی کھوجے جہاں بولوں تو کیسے
سبھی ڈوبیں گے گر ڈوبی یہ کشتی
مسافر، بادباں بولوں تو کیسے
خرابے میں بدلتا جا رہا ہے
یہ شہرِ بے اماں بولوں تو کیسے

0
22