| سراپا ہجر کے آثار بانٹے |
| وہ دل کے شہر میں اغیار بانٹے |
| جلا کر آنکھ کی شمعیں وہ اکثر |
| نئے موسم نئے تہوار بانٹے |
| کمی ہوگی نہ اپنی چاہتوں میں |
| وہ چاہے نفرتیں سوبار بانٹے |
| گزر کر دشتِ آگاہی سے ہم نے |
| بیابانوں میں بھی گلزار بانٹے |
| میں اس کے ساتھ خوش رہتا ہوں باصر |
| جو میری سوچ کا معیار بانٹے |
معلومات