سمندر ہوکے جو خاموش صحراؤں میں جیتے ہیں
یہ اپنے آپ میں سوئے ہوئے لوگوں کے قصّے ہیں
کہانی کے سبھی کردار میرے بھائی تھے لیکن
عروجِ داستاں کے وقت سب قابیل نکلے ہیں
وفا کے راستوں پر یوں بھٹکتا پھر رہا ہوں اب
کہ جیسے لوٹنے والے سے اپنے دل کے رشتے ہیں
مری تنہائیوں کی دھوپ میرے سر پہ رہنے دو
مجھے اب محفلوں کے پر سکوں سائے بھی ڈستے ہیں

0
18