سنا جائے اسے ہر دم ہے کتنا دل نشیں لہجہ
گماں کی وادیوں میں بھی سراپا پر یقیں لہجہ
کبھی آواز کی لرزش سے تارے جھلملاتے ہیں
کبھی ماحول میں بھر دے شرارے آتشیں لہجہ
کبھی سوچوں کے دھارے پر ہویدا دوست کی مانند
کبھی حسنِ سماعت کو نکھارے انگ بیں لہجہ
کبھی حرفِ طرب کے نور میں نکھرا ہوا ابھرے
کبھی معنی کے پردے میں ملے پردہ نشیں لہجہ
کبھی اونچا اڑائے زندگی کے راست بازوں کو
کبھی اہلِ ہوس کو رول دے زیرِزمیں لہجہ
کبھی احساس کے پاتال میں ڈوبا ہوا تارا
کبھی جذبوں بھرے ہونٹوں پہ مچلے دلنشیں لہجہ
کبھی عرشِ علا کے رازداروں میں ملا شامل
کبھی اہلِ زمیں میں شادماں نانِ جویں لہجہ

0
19