ابھی آزما لو.. |
ہوا تیرے آنگن میں رقصاں رہے گی |
چراغوں کے سائے بھی محفوظ ہونگے |
کسی پیڑ پر کوئی سرسبز پتّا نہ انگڑائی لےگا نہ جھومے گا جب تک |
تری آنکھ اذنِ تحّرک نہ دے گی |
اجازت کا اس کو تبرّک نہ دے گی |
ابھی آزما لو |
ابھی آسماں تیرے قدموں کے نیچے بچھا کے دکھا دوں |
ستارے لٹا دوں |
معطر گلابوں کے گہنوں سے تیرا سراپا سجا دوں |
تجھے زندگی کا مسیحا بنادوں |
ابھی آزمالو |
دعاؤں کی ظلمت سے آگے نکل کر |
کچھ ایسے عبادت کروں تیری جاناں |
کہ ہر اہلِ دل کا بنے تو ہی قبلہ |
تری دید ہر اک کی آنکھوں کا سرمہ بنا کے دکھادوں |
ابھی آزما لو |
اجالوں سے اجلی وفائیں ہوں تیری |
نہ ہوتے ہوئے بھی صدائیں ہوں تیری |
نہ پا کے بھی سمجھیں کہ تیرا چلن ہے |
خزاؤں میں بھی گل فشاں ہر چمن ہے |
پرانے رواجوں کی زخمی صدائیں |
تجھے خواب میں بھی نہ آکے ستائیں |
میری آرزو کی طلسماتی دنیا میں خود کو بسا لو |
ابھی آزما لو----ابھی آزما لو |
معلومات