حوادث کے بیابانوں میں دوڑے عمریں گزری ہیں |
اسے خوابوں کے دروازے پہ چھوڑے عمریں گزری ہیں |
مری آنکھوں کے پانی میں نہیں وہ کاٹ پہلے سی |
کہ دل میں درد کے لیموں نچوڑے عمریں گزری ہیں |
شکستہ آرزو کے در پہ اک مردہ سا دل جیسے |
پڑا ہے عشق سے ہر رشتہ توڑے عمریں گزری ہیں |
معلومات