آنکھ رکھتے ہوئے بے نور دریچے رکھے |
حاکمِ شہر بھی قاروں کے قرینے رکھے |
یہی اندازِ مروت ہے ہماری پہچان |
پھول غیروں کو تو اپنے لئے کانٹے رکھے |
کون ایسا ہے کہ تسکینِ انا کی خاطر |
آشیاں ترک کرے دوش پہ ڈیرے رکھے |
مار پڑتی ہے تو مستی میں بھی آتا ہے خیال |
ہم نے بے کار وسیلوں کے عقیدے رکھے |
ایک بیوہ کی یہ خواہش تھی کوئی پاک نظر |
اپنے بچوں کی طرح اس کے بھی بچے رکھے |
معلومات