Circle Image

مجاہد حسین فانی

@mhkhan505

محبت ایسے تھوڑی ہے
کہ جب چاہو ہو جائے
محبت تو بھروسہ ہے
محبت زندگی بھر کا تعلق ہے
بھروسہ ٹوٹ جائے تو
تعلق چھوٹ جائے تو

0
67
‏مجھے لفظِ محبت پر
نئی اک نظم کہنی ہے
جسے پڑھ کر جسے سن کر
یہاں سب بے قراروں کو
نئی امید مل جائے۔
سنو تم مسکرا دو ناں

0
70
میرا چھوڑو میرا کیا ہے
دیس میں گزرے یا پھر باہر
عمر ہے کٹ ہی جانی ہے ناں۔
سر میں چاندی آ بھی جائے
آنکھ بھی دندھلی ہو جائے تو
خواب تو پورے ہو جائیں گے

549
جو بھی پیارے پیارے ہیں
تیرے استعارے ہیں
کل تلک جو مجرم تھے
حکمراں ہمارے ہیں
پیاس سے جو مرتے تھے
پانیوں نے مارے ہیں

0
82
تری خواہش کو ٹالا جا رہا ہے
تجھے دل سے نکالا جا رہا ہے
سبھی کو ہی جلا ڈالے نہ اک دن
جو لاوا اک ابالا جا رہا ہے
گلا کرنا نہیں غم کی تپش کا
تجھے کندن میں ڈھالا جا رہا ہے

0
118
یونہی توقیر گنوانے سے بہت ڈرتے ہیں
اپنا دکھ سب کو سنانے سے بہت ڈرتے ہیں
دل تو کہتا ہے کہ شامل ہوں تری محفل میں
بن بلائے ہوئے آنے سے بہت ڈرتے ہیں
ہار تو مانیں گے لیکن نہ لڑیں گے حق پر
اپنے احباب زمانے سے بہت ڈرتے ہیں

0
64
غم چھپانے سے کچھ نہیں ہو گا
مسکرانے سے کچھ نہیں ہو گا
زورِ بازو پہ ہی بھروسہ رکھ
اس زمانے سے کچھ نہیں ہوگا
حاصلِ بات اب یہ ہے کہ مجھے
تیرے جانے سے کچھ نہیں ہو گا

66
وہ اس حیات کا مقصد کبھی سمجھ نہ سکا
جو مانگتا تھا خدائی، خودی سمجھ نہ سکا
وہ کہہ گیا تھا کہ لوٹا تو پھر ملوں گا تجھے
میں اتنا سادہ کہ اس تو کو ہی سمجھ نہ سکا
میں اس کے ہاتھ میں اک گل تھما کے آیا تھا
وہ اتنا سادہ اشارہ کبھی سمجھ نہ سکا

0
83
وہ اس حیات کا مقصد کبھی سمجھ نہ سکا
جو مانگتا تھا خدائی، خودی سمجھ نہ سکا
وہ کہہ گیا تھا کہ لوٹا تو پھر ملوں گا تجھے
میں اتنا سادہ کہ اس تو کو ہی سمجھ نہ سکا
میں اس کے ہاتھ میں اک گل تھما کے آیا تھا
وہ اتنا سادہ اشارہ کبھی سمجھ نہ سکا

0
93
خدا کا شکر کہ سچ اس زباں سے پھوٹے تھے
گلے کے طوق بڑی مشکلوں سے ٹوٹے تھے
میں اپنے گھر کو جو پلٹا تو یہ سمجھ آیا
کہ رہبروں نے مرے قافلے بھی لوٹے تھے
حسین کٹ کے بھی جیتا ہے کیوں کہ حق پر تھا
وہ قتل کر کے بھی ہارے ہیں کیوں کہ جھوٹے تھے

0
62
بیاں حالت بھی اب ہوتی نہیں ہے
سنو یہ دل لگی اچھی نہیں ہے
اگرچہ ذکر ہے میرا بھی اس میں
مگر یہ داستاں میری نہیں ہے
ہاں اس سے رابطہ تو ہے مگر اب
وہ باہم پہلے سی یاری نہیں ہے

0
62
‏مجھے کیا کیا نہ سننا پڑ رہا ہے
وفا کا عیب مہنگا پڑ رہا ہے
تمہارے بعد ہیں ویران رستے
مجھے تنہا ہی چلنا پڑ رہا ہے
کسی دن بن کے بادل آ کے برسو
یہ دل کا دریا سوکھا پڑ رہا ہے

0
111
درد کیسا اذیتیں کیسی
تُو نہیں تو شکایتیں کیسی
اک نہ بولے تو دوسرا بھی چپ
بن گئی ہیں روایتیں کیسی
ہم سے مطلب تو سب ہمارے ہیں
عشق کیسا محبتیں کیسی

0
89
‏چھوڑ کر ہم نے درِ یار کدھر جانا ہے
اپنا ارماں اسی دہلیز پہ مر جانا ہے
‏میں نے سوچا تھا کہ اس بار سدھر جانا ہے
دل مگر پھر سے یہ کہتا ہے اُدھر جانا ہے
وہی انداز وہی تلخ کلامی تیری
تو نے بھی دل سے کسی روز اتر جانا ہے

0
146
جانتا ہوں کہ کرے گا وہ کنارہ لیکن
ہے وہی شخص مجھے جان سے پیارا لیکن
خیر ممکن نہیں لوگوں کی زباں بندی بھی
لڑنا بنتا تھا مرے حق میں تمہارا لیکن
عید اک اور بھی گزری مری تنہائی میں
تجھ کو لگنے نہ دیا درد کا مارا لیکن

0
53
اس کی دہلیز پہ اک جلتا دیا چھوڑا ہے
یوں بہانے سے اسے حال بتا چھوڑا ہے
ایک دو خط ہیں حوالہ ہی مری چاہت کا
تو بتا اور مرے پاس بھی کیا چھوڑا ہے
کر کے برباد مجھے حال نہ پوچھا میرا
تم نے تو مجھ کو کراچی ہی بنا چھوڑا ہے

0
93
اب پلٹنے کو کچھ بچا ہی نہیں
اور آگے کا راستہ ہی نہیں
تیری خاطر جو کی نہ ہو میں نے
یاد ایسی کوئی دعا ہی نہیں
تو بھی آیا نہیں خیالوں میں
شعر تازہ کوئی ہوا ہی نہیں

0
40
ہم وہیں ہیں جہاں جہاں ہو تم
ڈھونڈتے پھر بھی ہیں کہاں ہو تم
ریگ زارِ وفا کا راہی میں
اور مرے سر پہ سائباں ہو تم
سر میں چاندی تو آ گئی لیکن
دل بضد ہے ابھی جواں ہو تم

0
81
کیا غضب بے بسی مسلط ہے
دیس پر خامشی مسلط ہے
لے گئی تیرگی کے دلدل میں
کیا عجب رہبری مسلط ہے
کیوں نہیں ڈھونڈتے دیا کوئی
کب سے یہ تیرگی مسلط ہے

0
79
‏نت نئے خواب دکھاتا ہے چلا جاتا ہے
جھوٹی امید دلاتا ہے چلا جاتا ہے
بھر گئے ہوں نہ کہیں زخم پرانے سارے
بس یہی دیکھنے آتا ہے چلا جاتا ہے
میرے در تک چلا آتا ہے یہی کافی ہے
گو کہ آتا ہے، رُلاتا ہے، چلا جاتا ہے

0
83
جب اس نے یہ کہا کہ تو محرم نہیں رہا
بس اس کے بعد رابطہ باہم نہیں رہا
میرے بھی سر سے چھن گئی دستار دوستو
اس کے بدن پہ بھی کوئی ریشم نہیں رہا

0
91
کلو میں انڈا بکتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہے
یا درجن آلو ہوتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
ذرا سا بارشں آتا ہے تو پانی آنے لگتا ہے
زیادہ بارش آتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
اگر ہم جلسے کرتے ہیں تو بھڑکیں مار لیتے ہیں
مگر جب کیس لگتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

0
347
ہونا کیا تھا اگر گلے ہوتے
آپ نے کب بھلا سنے ہوتے
آپ کو آزما کے اچھا کیا
ورنہ ہم در بدر ہوئے ہوتے
دوش کوئی نہیں ہواؤں کا
پھول یوں بھی بکھر گئے ہوتے

0
101
جن سے امید تھی وہ بھی تو نہ اچھا سمجھے
اب زمانہ بھی نجانے مجھے کیا کیا سمجھے
اپنی قسمت میں ہی لکھا نہ تھا ہمسر ہونا
ہم نے اک عمر تو اک دوجے کو پرکھا سمجھے
اس کی خاطر تو میں یہ جاں بھی نچھاور کر دوں
کوئی تو ہو جو مجھے جاں سے بھی پیارا سمجھے

0
110
ایسا نہیں کہ دل نے اشارہ نہیں کیا
ہم نے ہی عشق وِشق دوبارہ نہیں کیا
کر لی تباہ ہم نے ہی خود اپنی زندگی
لیکن کسی کا کوئی خسارہ نہیں کیا
بچھڑا تو اس کو دیکھ کے میں مسکرا دیا
آنسو برا لگے یہ گوارا نہیں کیا

0
129
سنو! جیسے کہ بارش میں
برستے رم جھمی قطرے
کوئی بھی گن نہیں سکتا
یہ ممکن ہی نہیں ہے ناں
تو ویسے ہی تمہاری یاد
مجھے کس قدر آتی ہے

0
67
شبِ ہجراں میں گئے وقت کے دھارے جاگے
دل میں پھر تیری محبت کے شرارے جاگے
تیری صورت ہے کسی جھیل کی پریوں جیسی
تجھ کو دیکھا تو کئی خواب ہمارے جاگے
آپ کے بعد بھی محفل رہی قائم دائم
آپ کے بعد مرے ساتھ ستارے جاگے

0
165
چلو یہ تو مجھ پہ عیاں ہوا
وہ جو تیرا میرا تھا رسم و رہ
وہ جو مجھ کو تجھ سے تھا واسطہ
وہ کہ منزلوں کا جو خواب تھا
وہ جو رشتہ اپنا اٹوٹ تھا
وہ فریب تھا وہ تو جھوٹ تھا

0
78
سیدھی سچی کھری باتیں ہوتی ہیں
تیری باتیں اچھی باتیں ہوتی ہیں
ورثے میں سے کس کو کیا کیا ملنا ہے
اب ہر گھر میں ایسی باتیں ہوتی ہیں
جس نے بس اک پل میں رشتہ توڑ دیا
وہ کیا جانے کتنی باتیں ہوتی ہیں

0
255
مرے دشمن کی جب تحسین کی تھی
وہیں تو نے مری توہین کی تھی
میں اس کو بھولنے سا لگ گیا ہوں
وہ جس نے صبر کی تلقین کی تھی
زمانہ بد دعائیں دے رہا تھا
کہو تم نے بھی تو آمین کی تھی

91
‏آخری اک سوال رہتا ہے
کیا تمہیں بھی ملال رہتا ہے؟
اس جہاں کی خبر نہیں مجھ کو
بس تمہارا خیال رہتا ہے
جانے والے کہاں پلٹتے ہیں
عمر بھر احتمال رہتا ہے

0
113
‏تمہاری یاد مجھے در بدر ضروری ہے
طویل راہ میں ذادِ سفر ضروری ہے
سمجھ سکے وہ کسی چشم اشکباراں کو
وفا کے داعی کو اتنا ہنر ضروری ہے
اگرچہ کتنے ہی لوگوں سے آشنائی ہے
وہ ایک شخص ہمیں خاص کر ضروری ہے

0
115
بچھڑتے وقت کوئی فیصلہ سناتا جا
جفا کی ناؤ کو ساحل پہ ہی لگاتا جا
تمہارے بعد مجھے راستے ستائیں گے
میں چل پڑا ہوں مرا حوصلہ بڑھاتا جا
میں جی نہ پاؤں گا تجھ بن تجھے کہا تھا ناں
میں مر رہا ہوں مجھے دیکھ مسکراتا جا

0
126
محبت اور غیرت کا
تعلق خون و دل سا ہے
اگر اک میں کمی آئے
تو دوجا بچ نہیں پاتا۔۔

0
109
باہم جو اک نباہ کا وعدہ تھا اس کا کیا
تم نے بھی میرے ہاتھ کو تھاما تھا اس کا کیا
یہ طے ہوا تھا کوئی نہ آئے گا درمیاں
لیکن تمہارے خط میں زمانہ تھا اس کا کیا
تم تو مکر گئے ہو کسی راہ و رسم سے
میں نے تو اپنا عہد نبھایا تھا اس کا کیا

0
140
گرچہ چپ چاپ مان لیتے ہیں
تیرے الفاظ جان لیتے ہیں
آپ کو بھولنے کی کوشش میں
روح کا امتحان لیتے ہیں
ہجر کی دھوپ کی تمازت میں
یاد کا سائبان لیتے ہیں

0
73
برا ہے یا بھلا کوئی نہیں ہے
گنہ سے ما ورا کوئی نہیں ہے
تمہیں دیکھے مگر دل بھی نہ دھڑکے
اب اتنا پارسا کوئی نہیں ہے
تمہارے بعد جینے کے تمنا
نہیں ہے باخدا کوئی نہیں ہے

0
1
187
مرد کا قصور ہے
جس نے قبر میں جاتی
نو مولود عورت کو ظلم سے بچایا تھا
سینے سے لگایا تھا
مرد کا قصور ہے
مرد کا قصور ہے

0
61
سب سوال کرتے ہیں
خواب ٹوٹ جائیں تو
ہم سفر سے راہوں میں
ہاتھ چھوٹ جائیں تو
زندگی ٹھہرتی ہے؟
چاہیں یا نہ چاہیں ہم

0
115
ہم رہتے ہیں ہر شخص کی تخریب سے واقف
لہجہ سے اداؤں کی بھی ترتیب سے واقف
دنیائے شکم سیر تجھے علم نہیں ہے
یہ بھوک نہیں ہے کسی تہذیب سے واقف
جو مجھ کو نصیحت کے ہیں درپے انہیں کہہ دو
ہونگے تو سہی عرصہِ تشبیب سے واقف

0
82
‏تیرے  اکرام  پر  بہت  خوش ہے
یہ مری چشمِ  تر  بہت خوش ہے
‏دیکھ  کر   تجھ  کو  ایسا   لگتا  ہے
تو مجھے چھوڑ کر   بہت خوش ہے
‏ہم   تو   پردیس  میں   پریشاں  ہیں
بس خوشی ہے کہ گھر بہت خوش ہے

0
66
‏جاں سے جب تک گزر نہیں جاتے
ہم  کبھی  چھوڑ  کر  نہیں جاتے
سازشیں  کرتی  ہیں ہوائیں بھی
پھول  یوں  ہی بکھر نہیں جاتے
‏ہم جہاں  سے اٹھائے جاتے ہیں

0
107
‏درد ملتا ہے چار سو سائیں
کون کرتا ہے آرزو سائیں
تیری باتیں جو یاد آئیں تو
خود سے رہتی ہے گفتگو سائیں
جن سے مل کر قرار آنا ہے
آپ ویسے ہیں ہو بہو سائیں

0
83
وہ لطف کہ جو لطف بتایا بھی نہ جائے
وہ درد کہ جو درد سنایا بھی نہ جائے
وہ دن بھی تھے جو ساتھ گزرتے تھے ہمارے
وہ دن بھی ہیں جب ہم کو بلایا بھی نہ جائے
وہ کیسا ہے بادل جو برسنے سے ہو عاری
وہ کیسا شجر جس کا کہ سایہ بھی نہ جائے

0
115
عہد رفتہ میں ہی کیوں وقت گزارا جائے
آ کے اب مل کہ ذرا حال سنوارا جائے
جرمِ الفت میں یہ دنیا مرا سر چاہتی ہے
اور یہ ضد کہ سرِ عام اُتارا جائے
خود بلایا بھی مگر حال نہ پوچھا میرا
اس کی محفل میں بھلا کون دوبارہ جائے

0
134
محبتوں پر نثار ہونے کی بات آئی تو آپ چپ ہیں
تھے جس کی خاطر عذاب جھیلے وہ رات آئی تو آپ چپ ہیں
یہ آپ کہتے تھے ہم لڑیں گے یہ بازی چاہت کی جیتنے تک
ابھی تو پہلا ہی مرحلہ تھا جو مات آئی تو آپ چپ ہیں
تبھی کہا تھا کہ مال و دولت سے مت کسی کا ضمیر تولو
پلٹ کے واپس جو آپ پر ہی بسات آئی تو آپ چپ ہیں

0
92
‏سمندر کو بھلا کب فرق پڑتا ہے؟
ہزاروں سمت سے اس میں
جو پانی آ کے گرتا ہے
وہ میٹھا ہے یا کڑوا ہے
کسی دریا کا پانی ہے
یا پھر ہے کارخانے سے

0
168
پیار تحفہ ہے کیا؟
آپ کو ہوا ہے کیا؟
چھوڑ دے یا پاس رکھ
اتنا سوچتا ہے کیا
تم تلک پہنچنے کا
کوئی راستہ ہے کیا

0
105
روح پیاسی ہے کیا کیا جائے
اک اداسی ہے کیا کیا جائے
ہر گلی میں درندے پھرتے ہیں
بد حواسی ہے کیا کیا جائے
یہ ترقی عذابِ جاں ٹھہری
بے لباسی ہے کیا کیا جائے

100
تمہیں اجازت ہے شہر والو
جو دل میں آئے مجھے کہو تم
مجھے کہو تم برا بھلا بھی
مجھے ملامت کرو جی بھر کے
کہو مجھے بدچلن بھی لیکن
فقط مجھے اتنا پوچھنا ہے

0
135
جب کوئی معتبر نہیں رہتا
عشق پھر پُر اثر نہیں رہتا
رزق رہتا مری تلاش میں ہے
سارا دن میں بھی گھر نہیں رہتا
دور جانے پہ وہ اداس بھی ہے
پاس بھی جو مگر نہیں رہتا

0
110
‏○ ضرورت ○
ہمارے دل کے طالب ہو؟
تو پھر بس اتنا بتلا دو
ضرورت ہے یا چاہت ہے؟
سیانے لوگ کہتے ہیں
ضرورت پوری ہونے پر

0
61
درد سہنے والوں کا
درد دینے والوں سے
جو اٹوٹ بندھن ہے
اس کو عشق کہتے ہیں

67
درد آشنا ہوتا تو سکون آ جاتا
حوصلہ دیا ہوتا تو سکون آ جاتا
تیرا نام لے لے کے لوگ باتیں کرتے ہیں
تو نے کچھ کہا ہوتا تو سکون آ جاتا
ذکرِ ترکِ رسم و راہ غیر سے سنا میں نے
آپ سے سنا ہوتا تو سکون آ جاتا

0
207
تیرا ہیجان نہیں دل سے اترنے والا
زخم الفت ہے یہ ایسے نہیں بھرنے والا
اس کی کس بات پہ اب ہم کو یقیں آئے گا
وہ جو اک شخص ہے وعدوں سے مکرنے والا
ایسا لگتا ہے اسے میری طلب ہے پھر سے
ورنہ وہ ایسے نہ تھا ہنس کے گزرنے والا

0
139
جانتا ہوں تمہاری عادت ہے
تم کبھی مشورہ نہیں لیتے
حکم دینا ہی تم نے سیکھا ہے
ایک رائے ہے تم اگر سن لو
عشق کی جس ہوا میں اڑتے ہو
دل میں جو خواب پال رکھے ہیں

0
87
‏میں تھک گیا ہوں
روز و شب کی مسافتوں سے
دوستوں کی شرارتوں سے
تری بدلتی ان عادتوں سے
میں تھک گیا ہوں
مرے بھی سینے میں ایک دل ہے

0
88
چاند چہرہ
جب تری دید ہی میسر ہے
پھر بھلا ہم کو اس سے کیا مطلب؟
چاند پورا ہے یا ادھورا ہے!

0
101
‏بعد از اجتناب ہیں اب بھی
میری آنکھوں میں خواب ہیں اب بھی
وہ کبھی تو کتاب کھولے گا
منتظر کچھ گلاب ہیں اب بھی
تو ہی مجبوریوں کو روتا تھا
ہم تو حاضر جناب ہیں اب بھی

2
204
دشمن دوست کا وکھرا کھاتا رکھا ہے
لیکن ہر اک شخص سے رشتہ رکھا ہے
جو کرنا ہے کر لے، لے میں حاضر ہوں
بول تری زنبیل میں کیا کیا رکھا ہے
میری خوشیاں بیچیں حرص کے بھاؤ پر
تم نے پیار کو کتنا سستا رکھا ہے

0
84
یہ نہ سوچو کبھی اس راہ میں صدمات نہیں
عشق ہے، دان میں ملتی ہوئی سوغات نہیں
زندگی ریت سے تعمیر ہوا ایک محل
اس سے بڑھ کر تو کسی کی کوئی اوقات نہیں
تیرے ہوتے ہوئے تنہائی مقدر میں رہی
تو مجھے چھوڑ بھی جائے تو کوئی بات نہیں

82
‏کالی شب میں دور فلک پر
وہ جو تارا چمک رہا ہے
یاد ہے تم کو تم نے اک دن
اس کو دیکھ کے یہ بولا تھا
فانی جب تک یہ چمکے گا
تب تک ہم تم ساتھ رہیں گے

92
‏میں تری یاد کو عادت نہیں ہونے دیتا
درد کو اپنے اذیت نہیں ہونے دیتا
چوٹ کھایا ہوا، ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا دل
اب کسی طور محبت نہیں ہونے دیتا
ایسا ظالم ہے خیالوں سے نکلتا ہی نہیں
میرے سجدوں کو عبادت نہیں ہونے دیتا

116
‏سفر چاہت کا تم نےسہل جانا
مگریہ اس قدر آساں نہیں ہے
ابھی تودو قدم آگے بڑھےہیں
ابھی گرلوٹنا ہے لوٹ جاؤ
مگرجب کل کو یہ سارازمانہ
ہماری جان کا دشمن بنےتو

126
‏غیر واجب اذیتیں لے کے
عشق جھیلا مصیبتیں لے کے
درد میرا ہے دل بھی میرا ہے
آپ جائیں نصیحتیں لے کے
باپ مرنے لگا تو سب بیٹے
آ گئے ہیں وصیتیں لے کے

0
83
‏پیار کا حق ادا کرے کوئی
مجھ سے میرے لئے لڑے کوئی
تیرا لہجہ ہے دشمنوں جیسا
تجھ پہ کیسے یقیں کرے کوئی
جب یہ طے ہے کہ ان سے ملنا ہے
کیوں بھلا موت سے ڈرے کوئی

82
‏تمہارے بعد
یہ بارشیں ہی تو خیر خواہ ہیں
کہ جب بھی ساون
تمہاری یادوں کو لے کے برسے
یہ میرے آنسو بھی پونچھتی ہیں۔

0
91
‏اگر تم کو یہ لگتا ہے
میں تم کو بھول جاؤں گا
نئی دنیا بساؤں گا
تو پھر یہ بھول ہے جاناں
کہ جب تک چاند نکلے گا
مرے آنگن کے پھولوں سے

0
94
غیر واجب اذیتیں لے کے
عشق جھیلا مصیبتیں لے کے
درد میرا ہے دل بھی میرا ہے
آپ جائیں نصیحتیں لے کے
باپ مرنے لگا تو سب بیٹے
آ گئے ہیں وصیتیں لے کے

71
‏میرا آنسو کسی صحرہ میں بکھر جائے گا
کچھ دنوں تک تو یہ دریا بھی اتر جائے گا
اتنا معلوم ہے وہ دل سے مجھے چاہتا ہے
اس سے پوچھو گے تو فی الفور مکر جائے گا
وہ نظر آئے تو دکھ درد بھلا دیتا ہوں
وہ جو مل جائے تو جیون ہی سنور جائے گا

0
155
کیا حسیں ہیں جناب آنکھیں
کر گئیں لا جواب آنکھیں
عشق پیاسا ہی مر نہ جائے
لے کے آؤ شراب آنکھیں
کاش تو نے بھی سمجھی ہوتیں
میری روتی کتاب آنکھیں

99
ہزاروں طنز سننا، سن کے بھی ہنستے ہوئے رہنا
تمہاری لاج کی خاطر یہ سب سہتے ہوئے رہنا
تمہیں معلوم بھی ہے ہجر کا احساس کیسا ہے
کبھی دیکھا ہے تم نے سانس کا اٹکے ہوئے رہنا
مری الفت مری چاہت مجھے کس موڑ پر لائی
کسی کو جوڑتے رہنا مگر بکھرے ہوئے رہنا

0
153
بحر آزار پار کر آیا
ایسا جیون گزار کر آیا
میں تری ایک بوند کی خاطر
اک سمندر نثار کر آیا
کیسے جھپکے وہ اپنی پلکوں کو
تجھ سے آنکھیں جو چار کر آیا

0
94
‏تم میرے لئے ایسے ہو
جیسے تپتے صحرا میں
تھکے ماندے مسافر پر
کوئی بادل،
جیسے کسی قحط زدہ زمین پر
زمانے بعد

0
429
تو بھی ہے تو اداس میں بھی ہوں
بن ترے بد حواس میں بھی ہوں
ہونٹ آنکھوں سے منطبق کر لو
اتنا چہرہ شناس میں بھی ہوں
دان ملتی نہیں ردائے وفا
عمر سے بے لباس میں بھی ہوں

0
141
‏یاد تیری ابھی گئی ہی نہیں
نیند آنکھوں میں آ سکی ہی نہیں
ہائے وہ عشق جو ہوا ہی نہیں
ہائے وہ آگ جو لگی ہی نہیں
تیرے جانے کے بعد لگتا ہے
زندگی اب تو زندگی ہی نہیں

112
‏تب ہی ممکن نہ تھی وفا شاید
بیچ میں آ گئی انا شاید
وہ بھی مل کر نہیں گیا شاید
میں نے بھی دی نہیں صدا شاید
وہ جو عہدِنباہ تھا ہم میں
آپ کو یاد نا رہا شاید

0
71
تمہاری عادت نہ تھی محبت پتا چلا ہے
تمہاری باتوں سے در حقیقت پتا چلا ہے
گو اتنا آساں فراق ہم نے سمجھ رکھا تھا
جدائی تو ہے بڑی اذیت پتا چلا ہے
وہ جس کے ہاتھوں پہ چاہتوں کا ہے خون اب بھی
وہ کر رہا ہے ہمیں نصیحت پتا چلا ہے

286
اب کے جب تجھ سے سامنا ہو گا
تو بھی حیران ہی کھڑا ہو گا
تیرے جانے پہ جو نہ بہہ پایا
اشک آنکھوں میں جم گیا ہو گا
ٹہنیاں رو رہی تھیں پانی کو
گل نے شاید یہ سن لیا ہو گا

0
88
ہماری آنکھ سے جو بہہ گیا ہے
وہ آنسو اک کہانی کہہ گیا ہے
سہے کب تک یہ دل بھی کج ادائی
یہی کافی ہے جتنا سہہ گیا ہے
فراوانیِ غم سے دیکھ فانی
مرا قالب تو آدھا رہ گیا ہے

0
106
جیسا بھی وقت رہے تم یہ کہو اچھا ہے
اور بری سوچ بھٹکنے بھی نہ دو اچھا ہے
جا بجا بغض کے کیچڑ سے بھری ہیں راہیں
اپنے دامن کو بچا کر ہی رکھو اچھا ہے
یہ نہ سمجھے کہیں دشمن کہ ڈرے بیٹھے ہو
تیغ و بھالا نہ سہی آگے بڑھو اچھا ہے

104
‏دردِ دل کی دوا ہے تیرے پاس
مر رہا ہوں شفا ہے تیرے پاس
اتنی جلدی بھلا دیا تو نے
کون سا ٹوٹکا ہے تیرے پاس؟
میں ترا منتظر ہوں لوٹ آنا
میرے گھر کا پتا ہے تیرے پاس

0
255
کیسے کہہ دوں فقط ہمارا ہے
عشق ہے اس سے، کب اجارہ ہے
کتنی مشکل سے تجھ کو پایا تھا
کتنی آسانیوں سے ہارا ہے
پھر سے وہ طالبِ تماشہ ہیں
پھر سے میری طرف اشارہ ہے

117
وہ مشورہ بھی ہمیں آج کل نہیں دیتا
وہ مسئلہ تو بتاتا ہے حل نہیں دیتا
جڑیں ہی کاٹ دیں جن لوگوں نے درختوں کی
انہیں گلہ ہے چمن سے کہ پھل نہیں دیتا
یہ کل کی بات ہے مجھ سے تھی دوستی جس کی
وہ اپنے وقت سے دو چار پل نہیں دیتا

104
تمہیں گر ایسا لگتا ہے
مجھے یوں چھوڑ جانے سے
مرا دل توڑ جانے سے
مرے دل سے محبت کے
نشاں سارے مٹا دو گے
محبت کی سزا دو گے

0
85
‏آج میں نےدیکھاہے
پھرسےآسماں میں بھی
چاند لوٹ آیاہے
میرےگھرکےآنگن میں
روشنی بھی لوٹ آئی
تم نےہی کہاتھانا

0
61
‏تمہیں آسان لگتا ہے
ہمیشہ منتظر رہنا؟
کہ جب ہم کو پتا بھی ہو
ہیں جس کی منتظر آنکھیں
یہ راہیں چھوڑ بیٹھا ہے
وہ ناتا توڑ بیٹھا ہے

0
113
ہمیں زخموں کو سینا آ گیا ہے
بچھڑ کر تجھ سے جینا آ گیا ہے
تڑپ دل کی اچانک بڑھ گئی ہے
دسمبر کا مہینہ آ گیا ہے
بری دنیا بھلی لگنے لگی یا
ہمیں شاید قرینہ آ گیا ہے

0
73
آپ جوں ہی آئیں گے
درد بھول جائیں گے
آپ کی خدا جانے
ہم وفا نبھائیں گے
ٹہنیوں سے ٹوٹے تو
پھول سوکھ جائیں گے

0
122
اپنا سب کچھ لٹا کے لے آیا
میں محبت اٹھا کے لے آیا
کچھ دنوں سے بہت اداسی تھی
تیری یادیں چُرا کے لے آیا
روٹھ کر اس کی بزم سے نکلا
خود ہی خود کو منا کے لے آیا

0
170
درد ملتا ہے چار سو سائیں
کون کرتا ہے آرزو سائیں
تیری باتیں جو یاد آئیں تو
خود سے کرتا ہوں گفتگو سائیں
جن سے مل کر قرار آنا ہے
آپ ویسے ہیں ہو بہو سائیں

0
159
مجھے ایسی محبت چاہیے ہے
جہاں گر درد ہو، درمان بھی ہو
جہاں رشتوں کی کچھ پہچان بھی ہو
مرے آنسو کسی کے لب پہ ٹپکیں
مری خوشیوں سے چہرہ کوئی چمکے
مرے خوابوں میں ہو جس کا بسیرا

0
118
ترے غم سے رہائی چاہتا ہے
یہ دل اب کے جدائی چاہتا ہے
مجھے تو صرف تُو ہی چاہیے تھا
مگر تُو تو خدائی چاہتا ہے
تعلق میں وہ سچائی نہیں ہے
کہ خوں بھائی کا بھائی چاہتا ہے

0
134
یاد تیری ابھی گئی ہی نہیں
نیند آنکھوں میں آ سکی ہی نہیں
ہائے وہ عشق جو ہوا ہی نہیں
ہائے وہ آگ جو لگی ہی نہیں
تیرے جانے کے بعد لگتا ہے
زندگی اب تو زندگی ہی نہیں

0
129
یہی تو غم ہے محبت شناس لوگوں کا
کہ درد رکھتے ہیں سارے اداس لوگوں کا
مجھے تو خود سے بھی بڑھ کر تھی آبرو اس کی
اسے تو مجھ سے بھی بڑھ کر تھا پاس لوگوں گا
جو سادہ دل تھے محبت کا کھیل ہارے ہیں
ابھی کھلا کہ یہ کرتب تھا خاص لوگوں کا

0
235
یہ کیسا تم نے سوال پوچھا
بچھڑ کے تم سے کہاں گیا تھا
اگر میں کہہ دوں بچھڑ کے تم سے
میں مر رہا تھا نہ جی رہا تھا
ہمیشہ تم کو ہی ڈھونڈتا تھا
کبھی یہ جگنو کبھی یہ گلشن

0
101
جو مل کے دیکھے تھے خواب مانگوں تو دے سکو گے؟
محبتوں کا حساب مانگوں تو دے سکو گے؟
کیا کہا ہے کہ جان حاضر ہے میری خاطر؟
تو کیا یہ سچ ہے جناب، مانگوں تو دے سکو گے؟
اگر یہ سچ ہے کہ اب تعلق نہیں رہا ہے
تو پھر وہ تحفہ، کتاب، مانگوں تو دے سکو گے؟

0
181
یہ جو اک یاد کا دریا ہے مرے چاروں طرف
یہ جو ہے سوچ سمندر میں بھنور کے جیسی
یہ جو ہر سمت مجھے تو ہی نظر آتا ہے
تجھ کو لگتا ہے کہ خط میں ترا یہ لکھ دینا
آج کے بعد ملاقات نہیں ہو سکتی
آپ سے اب تو کوئی بات نہیں ہو سکتی

0
114