ترے غم سے رہائی چاہتا ہے
یہ دل اب کے جدائی چاہتا ہے
مجھے تو صرف تُو ہی چاہیے تھا
مگر تُو تو خدائی چاہتا ہے
تعلق میں وہ سچائی نہیں ہے
کہ خوں بھائی کا بھائی چاہتا ہے
جو خود ہی مجھ کو دھوکا دے رہا ہے
وہی مجھ سے صفائی چاہتا ہے
اُسی سے خوف کھاتا ہے مرا دل
جو مجھ کو انتہائی چاہتا ہے
ازل سے فطرتِ انساں یہی ہے
تعلق ابتدائی چاہتا ہے
تجھے بھی شاعری کی سوجھی فانی
تو تُو بھی خود نمائی چاہتا ہے؟

0
111