‏تمہاری یاد مجھے در بدر ضروری ہے
طویل راہ میں ذادِ سفر ضروری ہے
سمجھ سکے وہ کسی چشم اشکباراں کو
وفا کے داعی کو اتنا ہنر ضروری ہے
اگرچہ کتنے ہی لوگوں سے آشنائی ہے
وہ ایک شخص ہمیں خاص کر ضروری ہے
امیرِ شہر نے دی ہیں پناہ گاہیں بھی
غریبِ شہر کو پر اپنا گھر ضروری ہے
ہے کس طرح کا تعلق جو بے شکایت ہے
یہ ہاں وہ ناں یہ اگر وہ مگر ضروری ہے

0
115