‏چھوڑ کر ہم نے درِ یار کدھر جانا ہے
اپنا ارماں اسی دہلیز پہ مر جانا ہے
‏میں نے سوچا تھا کہ اس بار سدھر جانا ہے
دل مگر پھر سے یہ کہتا ہے اُدھر جانا ہے
وہی انداز وہی تلخ کلامی تیری
تو نے بھی دل سے کسی روز اتر جانا ہے
پھر لپٹ جاتا ہے امکان نیا قدموں سے
جب بھی یہ سوچا کہ اب لوٹ کے گھر جانا ہے
ضبط لازم ہے اگر عشق ہے مقصد فانی
درد سہہ کر تو محبت نے سنور جانا ہے

0
146