وہ لطف کہ جو لطف بتایا بھی نہ جائے |
وہ درد کہ جو درد سنایا بھی نہ جائے |
وہ دن بھی تھے جو ساتھ گزرتے تھے ہمارے |
وہ دن بھی ہیں جب ہم کو بلایا بھی نہ جائے |
وہ کیسا ہے بادل جو برسنے سے ہو عاری |
وہ کیسا شجر جس کا کہ سایہ بھی نہ جائے |
خواہش بھی اسے ہے کہ وہ بازی بھی جیتے |
کہتا ہے مقابل کوئی لایا بھی نہ جائے |
پھر کیسا ہو منظر کے ملیں ہم سرِ مقتل |
اور تیر کسی سمت چلایا بھی نہ جائے |
معلومات