وہ لطف کہ جو لطف بتایا بھی نہ جائے
وہ درد کہ جو درد سنایا بھی نہ جائے
وہ دن بھی تھے جو ساتھ گزرتے تھے ہمارے
وہ دن بھی ہیں جب ہم کو بلایا بھی نہ جائے
وہ کیسا ہے بادل جو برسنے سے ہو عاری
وہ کیسا شجر جس کا کہ سایہ بھی نہ جائے
خواہش بھی اسے ہے کہ وہ بازی بھی جیتے
کہتا ہے مقابل کوئی لایا بھی نہ جائے
پھر کیسا ہو منظر کے ملیں ہم سرِ مقتل
اور تیر کسی سمت چلایا بھی نہ جائے

0
115