اب پلٹنے کو کچھ بچا ہی نہیں
اور آگے کا راستہ ہی نہیں
تیری خاطر جو کی نہ ہو میں نے
یاد ایسی کوئی دعا ہی نہیں
تو بھی آیا نہیں خیالوں میں
شعر تازہ کوئی ہوا ہی نہیں
اس نے جب کہہ دیا نہیں تو پھر
اور کہنے کو کچھ رہا ہی نہیں
میرے حامی خرید کر بولا
پاس تیرے کوئی گواہ ہی ہیں
بات قسمت پہ آ گئی ہے تو پھر
بات میں اب کوئی مزہ ہی نہیں

0
40