‏بعد از اجتناب ہیں اب بھی
میری آنکھوں میں خواب ہیں اب بھی
وہ کبھی تو کتاب کھولے گا
منتظر کچھ گلاب ہیں اب بھی
تو ہی مجبوریوں کو روتا تھا
ہم تو حاضر جناب ہیں اب بھی
پھول کانٹے بھی آگ پانی بھی
پیار کے یہ حساب ہیں اب بھی

2
186
خوب

بہت خوب

0