Circle Image

Javed Aslam

@jaslamkhan

شام چپکے سے کوئی آتا ہے
میری تنہائیاں بڑھاتا ہے
گیت جسکو بھلا چکے تھے ہم
دُھن اسی کی وہ گنگناتا ہے
خواب ہے تُو اگر تو نیند میں آ
جاگتوں کو تُو کیوں ڈراتا ہے

0
43
زندگی کا سفر تمام ہوا
تب دعاؤں کا اہتمام ہوا
ہم نے سمجھا تھا زندگی جس کو
مختصر سا وہ اک قیام ہوا
عمر تنہا گزر گئی پر اب
چار کاندھوں کا انتظام ہوا

0
130
دے کے خوشبو یے بکھر جاتا ہے
پھول محبوب پہ مر جاتا ہے
درد جب حد سے گزر جاتا ہے
جان جاتے ہی ٹھہر جاتا ہے
وصل ہو یا ہو جدائی کا غم
چڑھتا دریا ہے اتر جاتا ہے

0
53
ایک دوجے سے جو شکایت ہے
وہ عداوت نہیں روایت ہے
زندگی ہے تو مسئلے بھی ہیں
بِن مسائل تو یے حکایت ہے

0
52
نامجھے کسی کی ہے آرزو نہ ہی غیر کا میں نصیب ہوں
جو ہے ہم نوا جو ہے ہم سفر میں اسی کے دل کے قریب ہوں

0
66
کہانی بہت مختصر ہے
خوشی اور غم ہم شجر ہے
فراموش کر کے غموں کو
خوشی کو اٹھانا ہُنر ہے

0
53
بہاریں آ چکی ہیں اب انہیں جانے کی جلدی ہے
چمن والو سمیٹو پھول مرجھانے کی جلدی ہے
بِنا کھوئے نہیں ملتی کوئی بھی چیز دنیا میں
یہاں تو ہر کسی کو کچھ نہ کچھ پانے کی جلدی ہے
ذرا سی آبرو تھوڑی محبت چن کے رکھا تھا
زمانے کو مری جھولی کو بکھرانے کی جلدی ہے

0
53
نا کرو گریہ و زاری
دیکھ تم کو جگ ہنسے گا
زندگی جی لو نہیں تو
وقت لے کر چل بسے گا

0
67
تھے مکیں موم دل سبھی اس میں
گھر مرا دیر تک جلا ہو گا

0
74
جس کے قدموں کا یہ نشاں ہو گا
وہ بہت دور تک چلا ہو گا

0
81
سفَلتا بوجھ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر
اَنا جب روگ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ سبقت کو جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے حاصل کریں کیوں کر یہ کوشش چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے متَّحد ہو جائیں ہم سارے

0
131
وہ گیا چھوٹ مگر آتا ہے
ہر گھڑی شام و سحر آتا ہے
سامنے آنکھ کے جو دکھتا تھا
بند آنکھوں سے نظر آتا ہے

0
63
وہ گیا چھوٹ مگر آتا ہے
ہر گھڑی شام و سحر آتا ہے
آنکھ کھولے جو نظر آتا تھا
بند آنکھوں سے نظر آتا ہے

0
65
نا منزلوں کی ہے نہ کسی قیصری کی ہے
دنیا میں زندگی کی مہم واپسی کی ہے
حسرت تھی یے بہارِ چمن دائمی رہے
منصوبہِ چمن میں خزاں بے بسی کی ہے
پہلی سی لذتیں ہیں کہاں زندگی میں اب
دورِ جدید میں یے فضا بے رخی کی ہے

0
56
جگر کو چین آنکھوں کو قرار آئے
وہ آئے تو خزاں میں بھی بہار آئے
ترے جیسا نہیں کوئی ملا اب تک
مری دنیا میں حالانکہ ہزار آئے
خریدے گا کسی کے غم کو کیوں کوئی
یہاں کی ہر گلی میں ہم پکار آئے

69
کیوں زمیں پر کہیں خلا ہو گا
ہم نہ ہونگے تو دوسرا ہو گا

1
79
حشر میں میرا حال کیا ہو گا
جب مِرے سامنے خدا ہو گا
پردہ اُٹھ جائے گا اِن آنکھوں سے
جسم جب روح سے جدا ہو گا
میں گناہوں کو کیسے ڈھانکوں گا
رب سے کچھ بھی نہیں چھپا ہو گا

236
بِن تِرے حال یوں مِرا ہو گا
دیپ ہو گا مگر بجھا ہو گا

0
73
سفر اہم تر ہے منزلوں سے
سفر کو تم خوش نما بنا لو
بنا لو گھر کشتیوں میں اپنے
ہواؤں کو رہنما بنا لو

0
88
مر گئے تو کیا ہو گا
ترکِ مسئلہ ہو گا
ورثاء امتحاں دیں گے
میرا فیصلہ ہو گا

0
104
ٹوٹے رشتوں سے فقط میرا خسارا نہ ہوا
تم ہمارے نہ ہوئے میں بھی تمہارا نہ ہوا
میرا دروازہ کھلا رہ گیا جن کی خاطر
ان کی آمد نہ ہوئی میرا اشارہ نہ ہوا

0
97
دیا غم اور خوشی دونوں اسی نے
لیا کچھ بھی نہیں اچھا ہنر ہے

0
71
فضاؤں میں محبت مسترد ہے
یے کیسے لوگ ہیں کیسا بلد ہے

0
75
میرا دروازہ کھلا رہ گیا جن کی خاطر
ان کی آمد نہ ہوئی میرا اشارہ نہ ہوا

0
93
روحیں تنہا کہاں نکلتی ہیں
حسرتیں ساتھ ان کے چلتی ہیں
آہٹیں سونے ہی نہیں دیتیں
یادیں چھت پر مری ٹہلتی ہیں
تم چلے آؤ بھی تو کیا ہو گا
مجھ سے خوشیاں کہاں سنبھلتی ہیں

0
93
روحیں پرواز جب بھی کرتی ہیں
حسرتیں ساتھ ساتھ اڑتی ہیں

133
خواہشیں تو اڑان بھرتی ہیں
یہ زمیں پر کہاں اترتی ہیں
روحیں پرواز جب بھی کرتی ہیں
حسرتیں ساتھ ساتھ اڑتی ہیں

138
ہم چراغاں کریں گے دل اپنا
عید یادوں کے سنگ گزرے گی

180
جب تلک جان کا نہ ہو خطرہ
کون چھتّے پہ پھینکے گا پتھر
گھر بنائیں یا کام پر نکلیں
جن کے گھر کو بنا دیا پتھر

0
92
ابھی اک دل ڈھڑک اٹھا ہے کہیں
کوئی خوابوں میں دکھ گیا ہے کہیں
اسی گلشن سے ٹوٹ پھول کوئی
اسی گلشن میں چھپ گیا ہے کہیں

177
آپ وجہِ نشاط کر لیجے
آج مجھ پر بھی گھات کر لیجے
جنبشِ لب سے کچھ نہ نکلے گا
میری نظروں سے بات کر لیجے
یوں تو پربت بھی روک نا پائے
آپ دل دے کے مات کر لیجے

73
درمیاں جسم و جاں فاصلہ ہو گیا
نام میت ہر اک شخص کا ہو گیا
خامشی کا شہر ایک جیسا کفن
اب لحد میتوں کا پتا ہو گیا

0
67
خموشی سے کدورت اور بھی گمبھیر ہوتی ہے
کرو باتیں کہ باتوں میں چھپی تدبیر ہوتی ہے
بظاہر لاکھ گرد آلود کر دے وقت کی آندھی
نمایاں دسترس دل میں تری تصویر ہوتی ہے
خدا کی تھی خدا کی ہے خدا کی ہی رہے گی یے
جو رکھوالے تھے اُن کی کب یہاں جاگیر ہوتی ہے

102
ڈھونڈ مت وہ نہیں تو پائے گا
جو نہیں تھا ترا نہ آئے گا
جو لکیریں سجا دیا رب نے
کس کی جرات انہیں مٹائے گا
تشنگی جو زمیں نے پیدا کی
آسماں ہی اسے بجھائے گا

143
تو جو چاہے تری نظروں سے گرا دے مجھ کو
تیرے بس میں نہیں کے دل سے بھُلا دے مجھ کو
لڑ کے طوفاں سے اتر تو گیا ہوں ساحل پر
اب کدھر جاؤں کوئی یے تو بتا دے مجھ کو
ہے خطا میری محبت پے یقیں رکھتا ہوں
اب تری مرضی ہے جو چاہے سزا دے مجھ کو

0
133
چلتے چلتے ہو گئ ہے شام جب
اے مِری منزل ٹھہر جا چل نہ اب
بس رضا رب کی دعا ماں کی رہے
کچھ زیادہ اور ہو مانگا تھا کب
قبر میں تنہا لٹا واپس گئے
بھائی ہمساےء اقارب اور سب

114
جہاں میں یے بھلا کیوں ہے
سُکوں کا انخلا کیوں ہے
تجھے کھوےء کٹے برسوں
مرے دل میں ملا کیوں ہے
سوئ ہے زندگی لیکن
حواس اپنا جگا کیوں ہے

165
فریبیوں کے بھنور سے نکل گئے ہوتے
جو ہاتھ آپ کا ہوتا سںبھل گیے ہو تے
شکوہِ بے حسی بے جان راستوں سے کیوں
حواس والو تم ہی بدل گئے ہوتے
مصیبتوں نے توازن بنارکھا ورنہ
کسی نشیب پے لازم پھسل گیے ہو تے

130
گھر مرا جگمگایا کرے
تو یوں ہی روز آیا کرے
چار دن کی تو ہو چاندنی
پھر اندھیرا ڈرایا کرے
میں بلندی کو چھوتا رہوں
تہمتیں وہ لگایا کرے

96