Circle Image

Javed Aslam

@jaslamkhan

شام چپکے سے کوئی آتا ہے
میری تنہائیاں بڑھاتا ہے
گیت جسکو بھلا چکے تھے ہم
دُھن اسی کی وہ گنگناتا ہے
خواب ہے تُو اگر تو نیند میں آ
جاگتوں کو تُو کیوں ڈراتا ہے

0
33
زندگی کا سفر تمام ہوا
تب دعاؤں کا اہتمام ہوا
ہم نے سمجھا تھا زندگی جس کو
مختصر سا وہ اک قیام ہوا
عمر تنہا گزر گئی پر اب
چار کاندھوں کا انتظام ہوا

0
58
دے کے خوشبو یے بکھر جاتا ہے
پھول محبوب پہ مر جاتا ہے
درد جب حد سے گزر جاتا ہے
جان جاتے ہی ٹھہر جاتا ہے
وصل ہو یا ہو جدائی کا غم
چڑھتا دریا ہے اتر جاتا ہے

0
39
ایک دوجے سے جو شکایت ہے
وہ عداوت نہیں روایت ہے
زندگی ہے تو مسئلے بھی ہیں
بِن مسائل تو یے حکایت ہے

0
36
نامجھے کسی کی ہے آرزو نہ ہی غیر کا میں نصیب ہوں
جو ہے ہم نوا جو ہے ہم سفر میں اسی کے دل کے قریب ہوں

0
57
کہانی بہت مختصر ہے
خوشی اور غم ہم شجر ہے
فراموش کر کے غموں کو
خوشی کو اٹھانا ہُنر ہے

0
42
بہاریں آ چکی ہیں اب انہیں جانے کی جلدی ہے
چمن والو سمیٹو پھول مرجھانے کی جلدی ہے
بِنا کھوئے نہیں ملتی کوئی بھی چیز دنیا میں
یہاں تو ہر کسی کو کچھ نہ کچھ پانے کی جلدی ہے
ذرا سی آبرو تھوڑی محبت چن کے رکھا تھا
زمانے کو مری جھولی کو بکھرانے کی جلدی ہے

0
42
نا کرو گریہ و زاری
دیکھ تم کو جگ ہنسے گا
زندگی جی لو نہیں تو
وقت لے کر چل بسے گا

0
54
تھے مکیں موم دل سبھی اس میں
گھر مرا دیر تک جلا ہو گا

0
55
جس کے قدموں کا یہ نشاں ہو گا
وہ بہت دور تک چلا ہو گا

0
58
سفَلتا بوجھ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر
اَنا جب روگ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ سبقت کو جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے حاصل کریں کیوں کر یہ کوشش چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے متَّحد ہو جائیں ہم سارے

0
98
وہ گیا چھوٹ مگر آتا ہے
ہر گھڑی شام و سحر آتا ہے
سامنے آنکھ کے جو دکھتا تھا
بند آنکھوں سے نظر آتا ہے

0
48
وہ گیا چھوٹ مگر آتا ہے
ہر گھڑی شام و سحر آتا ہے
آنکھ کھولے جو نظر آتا تھا
بند آنکھوں سے نظر آتا ہے

0
42
نا منزلوں کی ہے نہ کسی قیصری کی ہے
دنیا میں زندگی کی مہم واپسی کی ہے
حسرت تھی یے بہارِ چمن دائمی رہے
منصوبہِ چمن میں خزاں بے بسی کی ہے
پہلی سی لذتیں ہیں کہاں زندگی میں اب
دورِ جدید میں یے فضا بے رخی کی ہے

0
41
جگر کو چین آنکھوں کو قرار آئے
وہ آئے تو خزاں میں بھی بہار آئے
ترے جیسا نہیں کوئی ملا اب تک
مری دنیا میں حالانکہ ہزار آئے
خریدے گا کسی کے غم کو کیوں کوئی
یہاں کی ہر گلی میں ہم پکار آئے

54
کیوں زمیں پر کہیں خلا ہو گا
ہم نہ ہونگے تو دوسرا ہو گا

1
70
حشر میں میرا حال کیا ہو گا
جب مِرے سامنے خدا ہو گا
پردہ اُٹھ جائے گا اِن آنکھوں سے
جسم جب روح سے جدا ہو گا
میں گناہوں کو کیسے ڈھانکوں گا
رب سے کچھ بھی نہیں چھپا ہو گا

174
بِن تِرے حال یوں مِرا ہو گا
دیپ ہو گا مگر بجھا ہو گا

0
62
سفر اہم تر ہے منزلوں سے
سفر کو تم خوش نما بنا لو
بنا لو گھر کشتیوں میں اپنے
ہواؤں کو رہنما بنا لو

0
76
مر گئے تو کیا ہو گا
ترکِ مسئلہ ہو گا
ورثاء امتحاں دیں گے
میرا فیصلہ ہو گا

0
80
ٹوٹے رشتوں سے فقط میرا خسارا نہ ہوا
تم ہمارے نہ ہوئے میں بھی تمہارا نہ ہوا
میرا دروازہ کھلا رہ گیا جن کی خاطر
ان کی آمد نہ ہوئی میرا اشارہ نہ ہوا

0
76
دیا غم اور خوشی دونوں اسی نے
لیا کچھ بھی نہیں اچھا ہنر ہے

0
61
فضاؤں میں محبت مسترد ہے
یے کیسے لوگ ہیں کیسا بلد ہے

0
61
میرا دروازہ کھلا رہ گیا جن کی خاطر
ان کی آمد نہ ہوئی میرا اشارہ نہ ہوا

0
68
روحیں تنہا کہاں نکلتی ہیں
حسرتیں ساتھ ان کے چلتی ہیں
آہٹیں سونے ہی نہیں دیتیں
یادیں چھت پر مری ٹہلتی ہیں
تم چلے آؤ بھی تو کیا ہو گا
مجھ سے خوشیاں کہاں سنبھلتی ہیں

0
74
روحیں پرواز جب بھی کرتی ہیں
حسرتیں ساتھ ساتھ اڑتی ہیں

115
خواہشیں تو اڑان بھرتی ہیں
یہ زمیں پر کہاں اترتی ہیں
روحیں پرواز جب بھی کرتی ہیں
حسرتیں ساتھ ساتھ اڑتی ہیں

121
ہم چراغاں کریں گے دل اپنا
عید یادوں کے سنگ گزرے گی

166
جب تلک جان کا نہ ہو خطرہ
کون چھتّے پہ پھینکے گا پتھر
گھر بنائیں یا کام پر نکلیں
جن کے گھر کو بنا دیا پتھر

0
67
ابھی اک دل ڈھڑک اٹھا ہے کہیں
کوئی خوابوں میں دکھ گیا ہے کہیں
اسی گلشن سے ٹوٹ پھول کوئی
اسی گلشن میں چھپ گیا ہے کہیں

157
آپ وجہِ نشاط کر لیجے
آج مجھ پر بھی گھات کر لیجے
جنبشِ لب سے کچھ نہ نکلے گا
میری نظروں سے بات کر لیجے
یوں تو پربت بھی روک نا پائے
آپ دل دے کے مات کر لیجے

64
درمیاں جسم و جاں فاصلہ ہو گیا
نام میت ہر اک شخص کا ہو گیا
خامشی کا شہر ایک جیسا کفن
اب لحد میتوں کا پتا ہو گیا

0
56
خموشی سے کدورت اور بھی گمبھیر ہوتی ہے
کرو باتیں کہ باتوں میں چھپی تدبیر ہوتی ہے
بظاہر لاکھ گرد آلود کر دے وقت کی آندھی
نمایاں دسترس دل میں تری تصویر ہوتی ہے
خدا کی تھی خدا کی ہے خدا کی ہی رہے گی یے
جو رکھوالے تھے اُن کی کب یہاں جاگیر ہوتی ہے

99
ڈھونڈ مت وہ نہیں تو پائے گا
جو نہیں تھا ترا نہ آئے گا
جو لکیریں سجا دیا رب نے
کس کی جرات انہیں مٹائے گا
تشنگی جو زمیں نے پیدا کی
آسماں ہی اسے بجھائے گا

118
تو جو چاہے تری نظروں سے گرا دے مجھ کو
تیرے بس میں نہیں کے دل سے بھُلا دے مجھ کو
لڑ کے طوفاں سے اتر تو گیا ہوں ساحل پر
اب کدھر جاؤں کوئی یے تو بتا دے مجھ کو
ہے خطا میری محبت پے یقیں رکھتا ہوں
اب تری مرضی ہے جو چاہے سزا دے مجھ کو

0
83
چلتے چلتے ہو گئ ہے شام جب
اے مِری منزل ٹھہر جا چل نہ اب
بس رضا رب کی دعا ماں کی رہے
کچھ زیادہ اور ہو مانگا تھا کب
قبر میں تنہا لٹا واپس گئے
بھائی ہمساےء اقارب اور سب

97
جہاں میں یے بھلا کیوں ہے
سُکوں کا انخلا کیوں ہے
تجھے کھوےء کٹے برسوں
مرے دل میں ملا کیوں ہے
سوئ ہے زندگی لیکن
حواس اپنا جگا کیوں ہے

142
فریبیوں کے بھنور سے نکل گئے ہوتے
جو ہاتھ آپ کا ہوتا سںبھل گیے ہو تے
شکوہِ بے حسی بے جان راستوں سے کیوں
حواس والو تم ہی بدل گئے ہوتے
مصیبتوں نے توازن بنارکھا ورنہ
کسی نشیب پے لازم پھسل گیے ہو تے

99
گھر مرا جگمگایا کرے
تو یوں ہی روز آیا کرے
چار دن کی تو ہو چاندنی
پھر اندھیرا ڈرایا کرے
میں بلندی کو چھوتا رہوں
تہمتیں وہ لگایا کرے

82