بہاریں آ چکی ہیں اب انہیں جانے کی جلدی ہے
چمن والو سمیٹو پھول مرجھانے کی جلدی ہے
بِنا کھوئے نہیں ملتی کوئی بھی چیز دنیا میں
یہاں تو ہر کسی کو کچھ نہ کچھ پانے کی جلدی ہے
ذرا سی آبرو تھوڑی محبت چن کے رکھا تھا
زمانے کو مری جھولی کو بکھرانے کی جلدی ہے
ہزاروں قتل و غارت کی سند حاصل کیا جس نے
ملا جب عارضی منصب تو اٹھلانے کی جلدی ہے
لکیرِ اختتامی تو مٹا ڈالا ہے قدموں نے
عجب سی دوڑ ہے سب کو کہاں جانے کی جلدی ہے

0
42